آیات 23 - 24
 

وَ لَا تَقُوۡلَنَّ لِشَایۡءٍ اِنِّیۡ فَاعِلٌ ذٰلِکَ غَدًا ﴿ۙ۲۳﴾

۲۳۔اور آپ کسی کام کے بارے میں ہرگز یہ نہ کہیں کہ میں اسے کل کروںگا،

اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ ۫ وَ اذۡکُرۡ رَّبَّکَ اِذَا نَسِیۡتَ وَ قُلۡ عَسٰۤی اَنۡ یَّہۡدِیَنِ رَبِّیۡ لِاَقۡرَبَ مِنۡ ہٰذَا رَشَدًا﴿۲۴﴾

۲۴۔ مگر یہ کہ اللہ چاہے اور اگر آپ بھول جائیں تو اپنے رب کو یاد کریں اور کہدیجئے: امید ہے میرا رب اس سے قریب تر حقیقت کی طرف میری رہنمائی فرمائے گا۔

شان نزول: رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کچھ یہودیوں نے چند سوالات کیے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

میں تم سے کل بات کروں گا۔ اس میں اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ نہ فرمایا تو چالیس دن تک وحی نازل نہ ہوئی۔ چالیس دن کے بعد یہ آیت نازل ہوئی۔ (الفقیہ ۳: ۳۶۲۔ باب الایمان والنذور)

واضح رہے سیاق آیت اور شان نزول کے مطابق اگرچہ خطاب اپنے رسولؐ سے ہے لیکن دوسروں کو سمجھانا مقصود ہے۔

تفسیر آیات

رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے تاکیداً خطاب ہے: کسی عمل کی انجام دہی کا اظہار اس طرح نہ ہو کہ اس میں اللہ سے بے نیازی کا شائبہ اور استقلال کا اظہار ہو۔ خطاب اگرچہ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ہے لیکن اس میں دوسروں کے لیے آداب بندگی کی تعلیم ہے کہ کسی عمل کی انجام دہی کے سلسلے میں مصمم ارادے کا اظہار ہو تو مشیت الٰہی کے حوالے سے ہو۔

اس کائنات میں تکویناً جو بھی عمل انجام پاتا ہے اس میں اللہ تعالیٰ کا ارادہ، اس کی مشیت شامل ہوتی ہے ورنہ ایک پتا بھی نہیں ہل سکتا۔ انسان جو بھی عمل انجام دیتا ہے وہ اللہ کی دی ہوئی قدرت اور اس کی طرف سے عنایت شدہ تاثیر سے ہے۔

درست ہے اللہ کی طرف سے عنایت شدہ تاثیر کو بروئے کار لانا بندے کے ہاتھ میں ہے۔ بندے کے بازو میں اگر طاقت اللہ نے دی ہے تو اس کا استعمال بندے کے ہاتھ میں ہے کہ اس طاقت سے ضعیفوں کی دستگیری کرے یا ان پر ظلم کرے۔ تاہم دونوں صورتوں میں بندے نے اللہ کی دی ہوئی طاقت استعمال کی ہے۔ اس میں اسے استقلال حاصل نہیں ہے۔ فرق یہ ہے کہ اللہ نے اس طاقت کو ضعیفوں کی دستگیری کے لیے استعمال کرنے کو تشریعاً چاہا ہے اور ظلم کرنے کو تشریعاً نہیں چاہا۔ تکوینی و تشریعی اعمال، دونوں کے لیے انشاء اللہ کہنا چاہیے۔ اس طرح ایک مؤمن کے لیے ضروری ہے کہ اس آداب بندگی کا خیال کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی مشیت پر تکیہ کا اظہار کیے بغیر کسی کام کی انجام دہی کا اظہار نہ کرے۔

وَ اذۡکُرۡ رَّبَّکَ اِذَا نَسِیۡتَ: اگر آپ بھول جائیں تو اپنے رب کو یاد کریں۔ اولاً تو اس سے بھولنے کا وقوع ثابت نہیں ہوتا جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا:

لَئِنۡ اَشۡرَکۡتَ لَیَحۡبَطَنَّ عَمَلُکَ ۔۔۔۔ ( ۳۹ زمر: ۶۵)

اگر تم نے شرک کیا تو تمہارا عمل ضرور حبط ہو جائے گا۔

یہاں شرک کا وقوع نہیں ہے، صرف ایک فرض ہے جس کا مقصد موضوع کی اہمیت کو واضح کرنا ہے۔ اسی طرح یہاں بھول کا وقوع نہیں ہے صرف ایک فرض ہے۔ ثانیاً اگرچہ یہاں خطاب اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ہے لیکن ان لوگوں کو سمجھانا مقصود ہے جن کے لیے یہ قرآن دستور حیات ہے۔

اہم نکات

۱۔ مومن کے ہر عمل سے اللہ پر تکیہ کا اظہار ہونا چاہیے۔

مزید تحقیق کے لیے رجوع کیجیے: الوسائل ۔۲۳: ۳۵۳ باب استجباب استثناء ۔ مستدرک الوسائل : ۱۶: ۶۰ باب استجاب استثناء ۔ الصراط المستقیم ۱:۲۷ الباب الثانی


آیات 23 - 24