وَ تَحۡسَبُہُمۡ اَیۡقَاظًا وَّ ہُمۡ رُقُوۡدٌ ٭ۖ وَّ نُقَلِّبُہُمۡ ذَاتَ الۡیَمِیۡنِ وَ ذَاتَ الشِّمَالِ ٭ۖ وَ کَلۡبُہُمۡ بَاسِطٌ ذِرَاعَیۡہِ بِالۡوَصِیۡدِ ؕ لَوِ اطَّلَعۡتَ عَلَیۡہِمۡ لَوَلَّیۡتَ مِنۡہُمۡ فِرَارًا وَّ لَمُلِئۡتَ مِنۡہُمۡ رُعۡبًا﴿۱۸﴾

۱۸۔ اور آپ خیال کریں گے کہ یہ بیدار ہیں حالانکہ وہ سو رہے ہیں اور ہم انہیں دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے رہتے ہیں اور ان کا کتا غار کے دھانے پر دونوں ٹانگیں پھیلائے ہوئے ہے اگر آپ انہیں جھانک کر دیکھیں تو ان سے ضرور الٹے پاؤں بھاگ نکلیں اور ان کی دہشت آپ کو گھیر لے۔

18۔ ان کو کروٹ بدلتے دیکھ کر یہ خیال گزرنا قرین قیاس ہے کہ یہ بیدار ہیں، حالانکہ وہ محو خواب ہیں اور ہو سکتا ہے کہ ان کی آنکھیں کھلی ہوں، دیکھنے والے یہ خیال کریں کہ یہ لوگ بیدار بھی ہیں اور بیداروں کی سی حرکتیں بھی نہیں کر رہے ہیں۔ اس صورت حال کو دیکھ کر ایک خوفناک تصور ذہن میں آئے گا اور انسان وہاں سے بھاگنے میں ہی اپنی سلامتی تصور کرے گا۔ واضح رہے کہ بہت سے مقامات پر قرآن کا یہ طرز خطاب رہا ہے کہ ایک مطلب کو عام لوگوں کے لیے بیان کیا جاتا ہے لیکن خطاب اپنے رسول ﷺ سے کیا جاتا ہے۔