آیت 12
 

ثُمَّ بَعَثۡنٰہُمۡ لِنَعۡلَمَ اَیُّ الۡحِزۡبَیۡنِ اَحۡصٰی لِمَا لَبِثُوۡۤا اَمَدًا﴿٪۱۲﴾

۱۲۔ پھر ہم نے انہیں اٹھایا تاکہ ہم دیکھ لیں کہ ان دو جماعتوں میں سے کون ان کی مدت قیام کا بہتر شمار کرتی ہے۔

تشریح کلمات

الامد:

( ا م د ) اور الابد کے قریب المعنی ہیں لیکن الابد غیر محدود زمانے کے لیے ہے اور الامد محدود زمانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

البعث:

( ب ع ث ) کسی کے ابھارنے اور کسی طرف بھیجنے کے معنوں میں ہے یہ لفظ مردوں، زندہ کرنے اور سونے والوں کی طرف منسوب ہو تو بیدار کرنے کے معنی مراد لیے جاتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ طویل مدت کے بعد بیدار کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ان کو اپنے طویل خواب کا علم ہو جائے۔ چنانچہ بیداری کے بعد ان میں اختلاف ہوا کہ ہم کتنی مدت سوئے ہیں۔ بعض نے کہا:

لَبِثۡنَا یَوۡمًا اَوۡ بَعۡضَ یَوۡمٍ فَسۡـَٔلِ الۡعَآدِّیۡنَ ۔۔۔۔ (۲۳ مومنون: ۱۱۳)

ایک روز یا روز کا ایک حصہ (ہم وہاں ) ٹھہرے ہیں،

دوسرے بعض نے کہا:

رَبُّکُمۡ اَعۡلَمُ بِمَا لَبِثۡتُمۡ ۔۔۔۔ ( ۱۸ کہف: ۱۹)

تمہارا پروردگار بہتر جانتا ہے کہ تم کتنی مدت رہے ہو۔

اس تعبیر سے معلوم ہوا کہ مدت خواب ان کے لیے ایک معمہ ضرور تھا۔ جو بعد میں حل ہو گیا کہ ہم ایک دن نہیں کئی سو سال سوئے ہیں۔

۲۔ اَیُّ الۡحِزۡبَیۡنِ: دو جماعتوں سے مراد ممکن ہے خود اصحاب کہف میں خواب کی مدت کے بارے میں دو موقف بن گئے ہوں۔ چنانچہ آنے والی آیت میں فرمایا:

بَعَثۡنٰہُمۡ لِیَتَسَآءَلُوۡا بَیۡنَہُمۡ ۔۔۔۔ ( ۱۸ کہف: ۱۹)

اسی انداز سے ہم نے انہیں بیدار کیا تاکہ یہ آپس میں پوچھ گچھ کر لیں۔۔۔۔

آپس کے اس سوال و جواب سے وہ راز منکشف ہو جائے جو اللہ چاہتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ اللہ اپنے خاص بندوں کو دنیا سے اٹھنے سے پہلے ان کا مقام بتلا دیتا ہے۔


آیت 12