آیات 13 - 14
 

نَحۡنُ نَقُصُّ عَلَیۡکَ نَبَاَہُمۡ بِالۡحَقِّ ؕ اِنَّہُمۡ فِتۡیَۃٌ اٰمَنُوۡا بِرَبِّہِمۡ وَ زِدۡنٰہُمۡ ہُدًی ﴿٭ۖ۱۳﴾

۱۳۔ ہم آپ کو ان کا حقیقی واقعہ سناتے ہیں، وہ کئی جوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لے آئے تھے اور ہم نے انہیں مزید ہدایت دی۔

وَّ رَبَطۡنَا عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ اِذۡ قَامُوۡا فَقَالُوۡا رَبُّنَا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ لَنۡ نَّدۡعُوَا۠ مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اِلٰـہًا لَّقَدۡ قُلۡنَاۤ اِذًا شَطَطًا﴿۱۴﴾

۱۴۔ اور جب وہ اٹھ کھڑے ہوئے تو ہم نے ان کے دلوں کو مضبوط کیا پس انہوں نے کہا: ہمارا رب تو وہ ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے، ہم اس کے سوا کسی اور معبود کو ہرگز نہیں پکاریں گے، (اگر ہم ایسا کریں) تو ہماری یہ بالکل نامعقول بات ہو گی۔

تشریح کلمات

شطط:

حد سے تجاوز کرنے کو کہتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ اصحاب کہف کا قصہ بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: اِنَّہُمۡ فِتۡیَۃٌ اٰمَنُوۡا بِرَبِّہِمۡ ۔۔۔۔ یہ چند جواں سال افراد تھے جو ایمان باللہ سے سرشار تھے۔

۲۔ زِدۡنٰہُمۡ ہُدًی: ان کا ایمان بتاتا ہے کہ وہ ہدایت کی ایک منزل پر پہلے سے فائز تھے۔ اس ہدایت پر عمل کرتے ہوئے جب وہ ایمان لے آئے تو اللہ نے ان کی ہدایت میں اضافہ فرمایا۔ یعنی پہلی ہدایت دوسری ہدایت کے لیے زینہ بن گئی۔ اس طرح کارخیر، خیر کے لیے زینہ بن جاتا ہے۔

۳۔ وَّ رَبَطۡنَا عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ اِذۡ قَامُوۡا: یہاں بھی ان کے قیام کے نتیجے میں اللہ نے ان کے دلوں کو مضبوط بنایا۔ یہ بات الٰہی سنت ہے کہ وہ خود پہل نہیں کرتا۔ پہل بندے کو کرنا ہوتی ہے۔ جب بندہ پہل کرتا ہے تو اللہ توفیقات اور عنایتوں کے دروازے کھول دیتا ہے۔ اصحاب کہف نے قیام کیا تو اللہ نے انہیں دلیر بنا دیا۔ یہ نہیں فرمایا کہ ہم نے انہیں دلیر بنایا تو انہوں نے قیام کیا۔

روایات کے مطابق یہ شاہی درباری تھے۔ عیش و آرام کی زندگی میں تھے۔ اس پرتعیش زندگی اور گھر والوں کو چھوڑتے ہوئے انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ ہمارے مستقبل کا کیا بنے گا۔ ایسے فیصلوں کے لیے بڑی شجاعت اور دلیری درکار ہوتی ہے۔

اہم نکات

۱۔ عمل خیر، خیر کے لیے زینہ بن جاتا ہے۔

۲۔ خیر و سعادت کے لیے بندے کو پہل کرنا ہوتی ہے۔


آیات 13 - 14