آیت 18
 

وَ تَحۡسَبُہُمۡ اَیۡقَاظًا وَّ ہُمۡ رُقُوۡدٌ ٭ۖ وَّ نُقَلِّبُہُمۡ ذَاتَ الۡیَمِیۡنِ وَ ذَاتَ الشِّمَالِ ٭ۖ وَ کَلۡبُہُمۡ بَاسِطٌ ذِرَاعَیۡہِ بِالۡوَصِیۡدِ ؕ لَوِ اطَّلَعۡتَ عَلَیۡہِمۡ لَوَلَّیۡتَ مِنۡہُمۡ فِرَارًا وَّ لَمُلِئۡتَ مِنۡہُمۡ رُعۡبًا﴿۱۸﴾

۱۸۔ اور آپ خیال کریں گے کہ یہ بیدار ہیں حالانکہ وہ سو رہے ہیں اور ہم انہیں دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے رہتے ہیں اور ان کا کتا غار کے دھانے پر دونوں ٹانگیں پھیلائے ہوئے ہے اگر آپ انہیں جھانک کر دیکھیں تو ان سے ضرور الٹے پاؤں بھاگ نکلیں اور ان کی دہشت آپ کو گھیر لے۔

تشریح کلمات

الرقاد:

( ر ق د ) خوشگوار اور ہلکی نیند کو کہتے ہیں۔

الوصید:

( و ص د ) کے معنی آیت میں غار کا صحن یا دروازے کی چوکھٹ کے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ تَحۡسَبُہُمۡ اَیۡقَاظًا: ممکن ہے کہ بار بار کروٹ بدلنے سے یہ گمان ہو جائے کہ وہ بیدار ہیں لیکن سونے والا بھی کروٹیں بدلتا ہے۔ اس سے بیداری ثابت نہیں ہوتی۔ اس لیے بعض مفسرین نے کہا ہے: اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی آنکھیں کھلی تھیں، اس لیے دیکھنے والا انہیں بیدار خیال کرتا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دیکھنے والے ان کی آنکھیں کھلی دیکھیں اور خیال کریں یہ لوگ بیدار ہیں۔ ساتھ یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ وہ بیدار والوں کی حرکتیں نہیں کر رہے ہیں، اس صورت حال کو دیکھ کر ایک خوفناک تصور ذہن میں آئے گا اور وہاں سے بھاگنے میں انسان اپنی سلامتی تصور کرے گا۔

۲۔ نُقَلِّبُہُمۡ: ان کے جسموں کی حفاظت کے لیے کروٹ بدلانے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہونے کے باوجود ذرائع و اسباب استعمال فرماتا ہے ورنہ کروٹ بدلائے بغیر وہ ان کے جسموں کی حفاظت فرما سکتا تھا۔

۳۔ وَ کَلۡبُہُمۡ بَاسِطٌ ذِرَاعَیۡہِ: سے معلوم ہوا کہ اصحاب کہف کے ساتھ ان کا کتا بھی صدیوں کی نیند میں شامل رہا ہے۔ ان کے تحفظ کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس کتے کو مامور فرمایا اور صدیوں تک کتے کو تحفظ مل گیا۔

۴۔ لَوِ اطَّلَعۡتَ عَلَیۡہِمۡ: ان کو دیکھ کر دہشت طاری ہونے کی وجہ شاید یہ ہو کہ باہر سے دیکھنے والا جب چند آدمیوں کو غار میں کروٹ بدلتے ہوئے بیدار حالت میں دیکھے اور غار کے دہانے پر ایک کتے کو پنجہ پھیلائے ہوئے دیکھے تو یہ ایک غیر معمولی حالت معلوم ہوتی ہے اور دل پر خوف طاری ہو جاتا ہے۔ لَوِ اطَّلَعۡتَ میں اگرچہ خطاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ہے لیکن مراد خود رسول اللہ کا فرار مقصود نہیں ہے بلکہ ہر دیکھنے والا مقصود ہے۔ بہت سے مقامات پر قرآن کا یہ طرز خطاب رہا ہے کہ ایک مطلب کو عام لوگوں کے لیے بیان کیا جاتا ہے لیکن خطاب اپنے رسول سے کیا جاتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ اطاعت سے کتا بھی اللہ کے خاص بندوں کی معیت میں رہ سکتا ہے۔

۲۔ مردان حق کو تحفظ دینے سے خود کو تحفظ ملتا ہے خواہ وہ کتا ہی کیوں نہ ہو۔


آیت 18