نَحۡنُ نَقُصُّ عَلَیۡکَ نَبَاَہُمۡ بِالۡحَقِّ ؕ اِنَّہُمۡ فِتۡیَۃٌ اٰمَنُوۡا بِرَبِّہِمۡ وَ زِدۡنٰہُمۡ ہُدًی ﴿٭ۖ۱۳﴾

۱۳۔ ہم آپ کو ان کا حقیقی واقعہ سناتے ہیں، وہ کئی جوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لے آئے تھے اور ہم نے انہیں مزید ہدایت دی۔

13۔ اس واقعہ کی متعدد روایات ہیں۔ سب سے قدیم روایت سریانی روایت ہے کہ جو تقریباً 474ء میں اس واقعے کے تیس چالیس سال بعد ایک شامی پادری نے زبانی روایت کی بنیاد پر لکھی۔ بعد کی یونانی اور لاطینی روایتوں کا بھی ماخذ یہی سریانی روایت رہی ہے اور اسلامی مورخین کی روایت سریانی سے مختلف نہیں ہے۔ سریانی روایت کا خلاصہ یہ ہے :

رومی حکمران دقیانوس یا تھیوڈوسیس متوفی 251ء کے دور میں بت پرستی کا مذہب رائج تھا۔ وہ مسیح علیہ السلام کے پیروؤں پر سخت ظلم و ستم روا رکھتا تھا۔ سات جوانوں نے اپنے دین کو بچانے کے لیے ہجرت کی اور راستے میں ایک کتا ان کے ساتھ ہو لیا۔ ان کی کوشش کے باوجود وہ کتا ان سے الگ نہ ہوا۔ جس شہر سے یہ ہجرت واقع ہوئی، وہ اکثر مورخین کے بقول شہر افسوس یا افسس یا اِفسس تھا جو موجودہ ترکی کے شہر ازمیر سے 20 میل کے فاصلے پر موجود تھا۔ یہ شہر ایشیائے کوچک میں بت پرستی کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ وہ ایک بڑے گہرے غار میں چھپ گئے اور کتا اس غار کے دہانے پر بیٹھ گیا۔ پیدل سفر کی وجہ سے تھک گئے تھے، فورا سو گئے۔ یہ واقعہ تقریباً 251 عیسوی کو پیش آیا اور قیصر تھیوڈوسیس کے عہد 447ء میں بیدار ہوئے۔ اس طرح اصحاب کہف کے خواب کی مدت 197 سال بنتی ہے۔

جب وہ قیصر تھیوڈوسیس کے عہد میں بیدار ہوئے تو اس وقت رومی سلطنت مسیحیت اختیار کر چکی تھی۔ بیدار ہو کر آپس میں ایک دوسرے سے پوچھا ہم کتنی دیر سوئے ہوں گے؟ کسی نے کہا دن بھر۔ کسی نے کہا دن کا کچھ حصہ۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے ایک ساتھی کو چاندی کے چند سکے دے کر کھانا لانے کے لیے شہر بھیجا۔ جب وہ شہر پہنچا تو حیرت زدہ ہو گیا کہ ہر چیز بدلی ہوئی ہے، سب لوگ مسیحی ہو گئے ہیں اور بت پرستی کرنے والا کوئی باقی نہیں رہا۔ ایک دوکان سے روٹی خریدی، دکاندار کو چاندی کا ایک سکہ دیا جس پر قیصر تھیوڈوسیس کی تصویر تھی تو وہ اس سے پوچھنے لگے کہ وہ دفینہ کہاں ہے جہاں سے تم یہ سکہ لائے ہو؟ کیونکہ قیصر تھیوڈوسیس کو مرے ہوئے مدت گزر چکی ہے۔ یہ سن کر وہ حیران رہ گیا اور کہا کل ہی تو میں اور میرے ساتھی اس شہر سے بھاگے تھے اور غار میں پناہ لی تھی کہ دقیانوس (تھیوڈوسیس) کے ظلم سے بچے رہیں۔ اس کی باتیں سن کر لوگ اس غار تک پہنچ گئے اور خود بادشاہ بھی ان سے ملا۔