آیت 16
 

وَ اِذِ اعۡتَزَلۡتُمُوۡہُمۡ وَمَا یَعۡبُدُوۡنَ اِلَّا اللّٰہَ فَاۡ وٗۤا اِلَی الۡکَہۡفِ یَنۡشُرۡ لَکُمۡ رَبُّکُمۡ مِّنۡ رَّحۡمَتِہٖ وَیُہَیِّیٴۡ لَکُمۡ مِّنۡ اَمۡرِکُمۡ مِّرۡفَقًا﴿۱۶﴾

۱۶۔ اور جب تم نے مشرکین اور اللہ کے سوا ان کے معبودوں سے کنارہ کشی اختیار کی ہے تو غار میں چل کر پناہ لو، تمہارا رب تمہارے لیے اپنی رحمت پھیلا دے گا اور تمہارے معاملات میں تمہارے لیے آسانی فراہم کرے گا۔

تشریح کلمات

الاعتزال:

( ع ز ل ) کے معنی ہیں کسی چیز سے کنارہ کش ہو جانا۔

مِّرۡفَقًا:

( ر ف ق ) نرمی و آسائش۔

تفسیر آیات

ان لوگوں نے صرف شرک کو نہیں مشرکین کو بھی چھوڑ دیا۔ مشرک معاشرے میں رہنے کو پسند نہیں کیا۔ اس راہ میں چونکہ انہوں نے اپنی عیش و آرام کی زندگی چھوڑ دی تھی تو اللہ تعالیٰ نے ان سے آرام و راحت سلب نہیں فرمایا۔ اپنی رحمتوں کے سائے میں جگہ دی اور صدیوں کی مدت تک آرام و راحت کی نیند سلا دیا۔ نیند سے زیادہ آرام و سکون کسی چیز میں نہیں ہے کیونکہ نیند میں انسان تمام افکار سے بے نیاز ہو کر امن و سکون کی بہترین حالت میں چلا جاتا ہے۔

فَاۡ وٗۤا اِلَی الۡکَہۡفِ: عزم و ارادہ اور امید و یقین دونوں مستحکم اور مضبوط بنیادوں پر قائم ہیں۔ غیر اللہ کو چھوڑ کر اللہ کی پناہ میں جانے کا عزم اور اللہ کی طرف سے رحمتوں کے نزول اور آسانی کی فراہمی کی امید اور یقین۔

اہم نکات

۱۔ دنیا کی آلائشوں سے کنارہ کش انسان کو امن و سکون حاصل ہو جاتا ہے۔

۲۔ صرف شرک نہیں، شرک کے معاشرے سے بھی کنارہ کش ہونا چاہیے۔

۳۔ عزم و یقین یعنی مضبوط ارادہ اور نتیجہ پر یقین، کامیابی کے دو عناصر ہیں۔


آیت 16