آیت 19
 

وَ کَذٰلِکَ بَعَثۡنٰہُمۡ لِیَتَسَآءَلُوۡا بَیۡنَہُمۡ ؕ قَالَ قَآئِلٌ مِّنۡہُمۡ کَمۡ لَبِثۡتُمۡ ؕ قَالُوۡا لَبِثۡنَا یَوۡمًا اَوۡ بَعۡضَ یَوۡمٍ ؕ قَالُوۡا رَبُّکُمۡ اَعۡلَمُ بِمَا لَبِثۡتُمۡ ؕ فَابۡعَثُوۡۤا اَحَدَکُمۡ بِوَرِقِکُمۡ ہٰذِہٖۤ اِلَی الۡمَدِیۡنَۃِ فَلۡیَنۡظُرۡ اَیُّہَاۤ اَزۡکٰی طَعَامًا فَلۡیَاۡتِکُمۡ بِرِزۡقٍ مِّنۡہُ وَ لۡـیَؔ‍‍‍تَلَطَّفۡ وَ لَا یُشۡعِرَنَّ بِکُمۡ اَحَدًا﴿۱۹﴾

۱۹۔ اسی انداز سے ہم نے انہیں بیدار کیا تاکہ یہ آپس میں پوچھ گچھ کر لیں، چنانچہ ان میں سے ایک نے پوچھا: تم لوگ یہاں کتنی دیر رہے ہو؟ انہوں نے کہا: ایک دن یا اس سے بھی کم، انہوں نے کہا : تمہارا رب بہتر جانتا ہے کہ تم کتنی مدت رہے ہو پس تم اپنے میں سے ایک کو اپنے اس سکے کے ساتھ شہر بھیجو اور وہ دیکھے کہ کون سا کھانا سب سے ستھرا ہے پھر وہاں سے کچھ کھانا لے آئے اور اسے چاہیے کہ وہ ہوشیاری سے جائے اور کسی کو تمہاری خبر نہ ہونے دے۔

تشریح کلمات

وَرِقِکُمۡ:

( و ر ق ) الورق بکسر راء درہم کو کہتے ہیں اور الورق بفتح راء درخت کے پتے کو کہتے ہیں۔

تفسیر آیات

بَعَثۡنٰہُمۡ: ان کو بیدار کیا تاکہ ان کے لیے یہ سوال پیدا ہو جائے لِیَتَسَآءَلُوۡا کہ وہ کتنی دیر سوئے ہیں۔ اس سوال کے پیدا ہونے کی وجہ سے وہ اللہ کی ان عنایتوں سے واقف ہو جائیں گے جو صدیوں کے آرام و راحت کے خواب کی صورت میں ان کے شامل حال رہی ہیں۔

وہ کفر کی طاقت سے مایوس ہو کر بھاگ گئے تھے اور دل میں یہ حسرت لیے گھر بار چھوڑ دیا تھا کہ وہ دن کب آئے گا کہ باطل مٹ جائے، بت پرستی ختم ہو جائے اور توحید پرستی عام ہو جائے۔ اللہ نے ان کو اتنی مدت سلا دیا کہ وہ دن دیکھ پائیں کہ باطل مٹ چکا ہے اور حق کا بول بالا ہے۔

بادی الرای میں ان کو خواب کی مدت مختصر اور معمول کے مطابق معلوم ہو رہی تھی چونکہ کہا جاتا ہے کہ وہ صبح وقت نماز سوئے تھے اور دن ڈھلے بیدار ہو گئے۔ اس لیے ان کو تردد ہو گیا کہ ہم کل صبح سوئے تھے تو آج۔ قَالُوۡا لَبِثۡنَا یَوۡمًا: اگر آج صبح سوئے تھے تو دن کا ایک حصہ ہوجاتا ہے اَوۡ بَعۡضَ یَوۡمٍ ۔ یہ تو تھی بحث کی ابتدا اور بحث کا اختتام اس بات پر ہوا کہ رَبُّکُمۡ اَعۡلَمُ بِمَا لَبِثۡتُمۡ رب بہتر جانتا ہے کہ ہم کتنی مدت سوئے ہیں۔ آیت کے اس جملے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مدت خواب ان کے لیے معمہ بن گئی تھی جو بعد میں حل ہو گیا۔

فَابۡعَثُوۡۤا اَحَدَکُمۡ بِوَرِقِکُمۡ: جب ان میں سے ایک شخص کھانا خریدنے کے لیے شہر گیا تو دیکھا دنیا بدل چکی ہے۔ اب روم میں بت پرستی کا کوئی نشان نہیں ہے۔ سب عیسائی مذہب اختیار کر چکے ہیں۔ رہن سہن کے تمام طریقوں میں نمایاں تبدیلی آ گئی ہے۔ جب اس نے کھانا خریدنے کے لیے قیصر دقیانوس کے زمانے کا سکہ پیش کیا۔ روایت کے مطابق نان فروش کو شبہ ہوا کہ پرانے زمانے کا دفینہ اس کے ہاتھ لگا ہے۔ اس نے اسے حکام کے سامنے پیش کیا جس کے بعد راز کھلا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو دقیانوس کے زمانے میں اپنے مذہب کو بچانے کے لیے بھاگے تھے۔ (بحار الانوار ۱۴: ۴۲۳، باب قصہ اصحاب الکہف)

فَلۡیَنۡظُرۡ اَیُّہَاۤ اَزۡکٰی طَعَامًا: ان کے خیال میں مشرک قوم بتوں کے نام اپنے جانور ذبح کرتی ہے۔ ان ناپاک چیزوں سے بچ کر پاکیزہ طعام ہی بازار سے خرید لائیں۔

احادیث

امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے:

ان اصحاب الکہف اسرّوا الایمان و اظہروا الکفر فآجرھم اللّٰہ مرتین ۔ ( تفسیر عیاشی ۲: ۳۲۱)

اصحاب کہف نے ایمان کو چھپایا اور کفر کا اظہار کیا تو اللہ نے انہیں دوبار اجر مرحمت فرمایا۔

اہم نکات

۱۔ تقیہ کے ذریعے تنگ نظر دشمن سے بچاؤ کرنا عین فراست مؤمن ہے۔

۲۔ اللہ اپنے خاص بندوں پر عنایت فرماتا ہے تو انہیں اس پر آگاہ فرماتا ہے: لِیَتَسَآءَلُوۡا ۔۔۔۔

۳۔ کھانے کی چیزوں میں پاکیزگی کا لحاظ رکھنا اہل حق کا وطیرہ ہے: اَیُّہَاۤ اَزۡکٰی طَعَامًا ۔۔۔۔

۴۔ حق پرقائم رہنے کے لیے جابروں سے بچنے کاسامان کرنا چاہیے: وَ لۡـیَؔ‍‍‍تَلَطَّفۡ ۔۔۔۔


آیت 19