آیت 15
 

مَنِ اہۡتَدٰی فَاِنَّمَا یَہۡتَدِیۡ لِنَفۡسِہٖ ۚ وَ مَنۡ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیۡہَا ؕ وَ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزۡرَ اُخۡرٰی ؕ وَ مَا کُنَّا مُعَذِّبِیۡنَ حَتّٰی نَبۡعَثَ رَسُوۡلًا﴿۱۵﴾

۱۵۔ جو ہدایت حاصل کرتا ہے وہ اپنے لیے ہدایت حاصل کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے وہ اپنے ہی خلاف گمراہ ہوتا ہے اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھاتا اور جب تک ہم کسی رسول کو مبعوث نہ کریں عذاب دینے والے نہیں ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ مَنِ اہۡتَدٰی فَاِنَّمَا یَہۡتَدِیۡ لِنَفۡسِہٖ: جب انسان کے اعمال اس کے گلے کا ہار ہیں جو ہمیشہ اس کے ساتھ چسپاں اور آویزاں رہتا ہے تو اس کا لازمہ یہ ہوا کہ اگر انسان ہدایت حاصل کرتا ہے تو اس کا فائدہ اسی کو پہنچے گا وہ ہدایت و راہنمائی کرنے والوں پر کوئی احسان نہیں کرتا۔ اگر گمراہی اختیار کرتا ہے تو اس کا ضرر خود اٹھائے گا کسی اور کا کچھ نہیں بگڑتا۔

۲۔ وَ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزۡرَ اُخۡرٰی: انسان اپنے عمل کا خود ذمے دار ہے۔ اس ذمے داری میں اس کے ساتھ کوئی دوسرا شریک نہیں ہے۔ اللہ کی عدالت میں یہ ناممکن ہے کہ دوسروں کے عمل کی ذمے داری اس پر ڈال دی جائے یا اس کا بار گناہ کسی اور پر ڈال دیا جائے۔ لہٰذا ہر شخص کو یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ دوسرے کیا کر رہے ہیں بلکہ یہ دیکھنا چاہیے کہ میں کیا کر رہا ہوں۔

البتہ اچھی روایت قائم کرنے والے کو اس پر عمل کرنے والوں کا ثواب ملے گا اور گمراہی لانے والے پر اس گمراہی میں جانے والوں کا وبال بھی آئے گا لیکن یہاں اس بات پر توجہ رہے کہ سنت حسنہ رائج کرنے کا ثواب ملے گا، نہ یہ کہ اس پر عمل کرنے والے کا ثواب اس کو ملے گا۔ اسی طرح گمراہی پھیلانے کا گناہ ہو گا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ گمراہ ہونے والا خود ذمے دار نہ ہو، صرف گمراہی پھیلانے والا ذمے دار ہو۔

۳۔ وَ مَا کُنَّا مُعَذِّبِیۡنَ: اللہ جب تک اپنے رسولوں کے ذریعے بندوں پر حجت پوری نہیں کرتا، عذاب نہیں دیتا۔ یہ انصاف نہیں ہے کہ پیغام پہنچائے بغیر بندوں کو عذاب دے۔ عذاب اس وقت دیا جائے گا کہ جب اللہ کا پیغام پہنچنے کے بعد منہ موڑا ہو۔

اہم نکات

۱۔ انسان کو دوسروں کے اعمال پر نظر رکھنے کی جگہ اپنے اعمال پر نظر رکھنی چاہیے۔

۲۔ اتمام حجت کے بعد انحراف کی صورت میں عذاب ہو گا۔


آیت 15