آیات 13 - 14
 

وَ کُلَّ اِنۡسَانٍ اَلۡزَمۡنٰہُ طٰٓئِرَہٗ فِیۡ عُنُقِہٖ ؕ وَ نُخۡرِجُ لَہٗ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ کِتٰبًا یَّلۡقٰىہُ مَنۡشُوۡرًا﴿۱۳﴾

۱۳۔ اور ہم نے ہر انسان کا عمل اس کے گلے میں لٹکا رکھا ہے اور قیامت کے دن ہم اس کے لیے ایک کتاب پیش کریں گے جسے وہ کھلا ہوا پائے گا۔

اِقۡرَاۡ کِتٰبَکَ ؕ کَفٰی بِنَفۡسِکَ الۡیَوۡمَ عَلَیۡکَ حَسِیۡبًا ﴿ؕ۱۴﴾

۱۴۔ پڑھ اپنا نامۂ اعمال! آج اپنے حساب کے لیے تو خود ہی کافی ہے۔

تشریح کلمات

طٰٓئِرَہٗ:

( ط ی ر ) الطائر ، فضا میں حرکت کرنے والا پر دار جانور۔ تطیّر کسی پرندے سے شگون لینے کے معنوں میں ہے۔ عمل کو طائر کہا گیا کیونکہ’’عمل‘‘ سرزد ہونے کے بعد اس کے ہاتھوں سے اڑ جاتا ہے۔ عمل سرزد ہونے کے بعد یہ اختیار میں نہیں رہتا کہ اسے واپس لیا جا سکے۔ ممکن ہے عمل کے انرجی ہونے کی وجہ سے اسے طائر ، پرندہ کہا ہو۔

تفسیر آیات

۱۔ ہر انسان کی سعادت وشقاوت، کامیابی و ناکامی، حسن عاقبت یا انجام بد کسی بیرونی عامل سے مربوط نہیں ہے بلکہ اس کی تمام تر ذمے داری انسان کی اپنی ذات پر عائد ہوتی ہے۔ وہ اپنے عمل کے ہاتھوں اسیر ہے اور اپنے عمل ہی سے آزاد ہو سکتا ہے۔ اس کے سامنے خیر اور شر کے دروازے اس کے اپنے عمل کی چابی سے کھلتے ہیں۔ وہ دنیا اور آخرت میں اپنے اعمال کے آئینے میں دیکھا جاتا ہے۔

کُلُّ نَفۡسٍۭ بِمَا کَسَبَتۡ رَہِیۡنَۃٌ ﴿﴾ (۷۴ مدثر: ۳۸)

ہر شخص اپنے عمل کا گروی ہے۔

اس کی اپنی سرنوشت اور تقدیر کا پروانہ اس کے اپنے گلے کا ہار ہے۔

۲۔ قیامت کے دن اس کے اعمال ایک کھلی کتاب کی شکل میں اس کے سامنے رکھ دیے جائیں گے جسے دیکھ کر وہ چیخ اٹھے گا:

یٰوَیۡلَتَنَا مَالِ ہٰذَا الۡکِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیۡرَۃً وَّ لَا کَبِیۡرَۃً اِلَّاۤ اَحۡصٰہَا ۚ وَ وَجَدُوۡا مَا عَمِلُوۡا حَاضِرًا ؕ وَ لَا یَظۡلِمُ رَبُّکَ اَحَدًا﴿﴾ (۱۸ کہف: ۴۹)

ہائے ہماری رسوائی! یہ کیسا نامۂ اعمال ہے؟ اس نے کسی چھوٹی اور بڑی بات کو نہیں چھوڑا (بلکہ) سب کو درج کر لیا ہے اور جو کچھ انہوں نے کیا تھا وہ ان سب کو حاضر پائیں گے اور آپ کا رب تو کسی پر ظلم نہیں کرتا۔

ممکن ہے یہاں کتاب سے مراد کوئی تحریر نہ ہو بلکہ خود اعمال سامنے آجاتے ہوں اور انسان بالعیان اپنے اعمال دیکھ لیں۔ وَ وَجَدُوۡا مَا عَمِلُوۡا حَاضِرًا ۔۔۔۔ کا ظاہری مفہوم یہی ہے کہ خود عمل کو حاضر پائیں گے۔

۳۔ اِقۡرَاۡ کِتٰبَکَ: پڑھ اپنا نامہ اعمال۔ پڑھ کر شرمساری اور ندامت ہو گی۔ کوئی بھی عذر قبول نہ ہو گا۔

لَا تَعۡتَذِرُوا الۡیَوۡمَ ۔۔۔۔ (۶۶ تحریم: ۷)

آج عذر پیش نہ کرو۔۔۔۔

وہ اپنے آپ کو اس عمل کا ارتکاب کرتے ہوئے دیکھ لے گا۔یہاں کسی شاہد کی ضرورت ہے نہ شک کی گنجائش ہے۔ آج انسان اپنا محاسبہ خود کرے گا۔

اہم نکات

۱۔ انسان کا عمل، طوق گردن ہے جس سے چھٹکارا نہیں۔

۲۔ بروز قیامت انسان کو اپنا عمل خود نظر آئے گا۔


آیات 13 - 14