آیت 12
 

وَ جَعَلۡنَا الَّیۡلَ وَ النَّہَارَ اٰیَتَیۡنِ فَمَحَوۡنَاۤ اٰیَۃَ الَّیۡلِ وَ جَعَلۡنَاۤ اٰیَۃَ النَّہَارِ مُبۡصِرَۃً لِّتَبۡتَغُوۡا فَضۡلًا مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ لِتَعۡلَمُوۡا عَدَدَ السِّنِیۡنَ وَ الۡحِسَابَ ؕ وَ کُلَّ شَیۡءٍ فَصَّلۡنٰہُ تَفۡصِیۡلًا﴿۱۲﴾

۱۲۔ اور ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں بنایا ہے پھر ہم نے رات کی نشانی کو ماند کر دیا اور دن کی نشانی کو روشن کر دیا تاکہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو اور سالوں کا شمار اور حساب معلوم کر سکو اور ہم نے ہر چیز کو پوری تفصیل سے بیان کر دیا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ جَعَلۡنَا الَّیۡلَ وَ النَّہَارَ اٰیَتَیۡنِ: سورہ بقرہ آیت ۱۶۴ و دیگر آیات میں شب و روز کے آیات الٰہی ہونے کے بارے میں تفصیل سے گفتگو ہوئی ہے۔ یہاں دونوں آیتوں میں اختلاف کی حکمت بیان ہو رہی ہے کہ رات کو ماند، بے نور بنا دیا اور دن کو روشن کر دیا۔ روشن دن فضل رب کا سرچشمہ ہے۔ دن میں سورج کی روشنی کے ذریعے اللہ بندوں پر فضل فرماتا ہے اور ساتھ انسان دن کی روشنی میں اپنے لیے سامان زندگی فراہم کر سکتا ہے۔

۲۔ وَ لِتَعۡلَمُوۡا عَدَدَ السِّنِیۡنَ: شب کی بے نوری اوردن کی روشنی کے اختلاف سے نور کا وجود محسوس ہوتا ہے اور اس نور کے آنے جانے سے سالوں مہینوں ، ہفتوں اور دنوں کا حساب ہوتا ہے۔ یہ روز و شب اللہ تعالیٰ کی قدرتی تقویم بھی ہے جسے ہرخواندہ و ناخواندہ پڑھ سکتا ہے۔

۳۔ وَ کُلَّ شَیۡءٍ فَصَّلۡنٰہُ تَفۡصِیۡلًا: عام طور پر اس جملے کی یہ تفسیر کی جاتی ہے: ہم نے ہر اس بات کو پوری تفصیل سے بیان کیا ہے جس کی انسان کو ضرورت ہے۔ اس سے احکام مراد لیے گئے ہیں۔ جب کہ آیت میں کسی تشریع کی نہیں ، تکوین کی بات ہو رہی ہے۔ لہٰذا اس جملے سے یہ مراد لینا زیادہ مناسب ہے: وکل شیٔ مما خلقنا فصلناہ تفصیلا کہ اللہ کے تخلیقی نظام میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ ہر شیء کی خلقت کی حکمت اور مصلحت واضح ہے جس طرح لیل ونہار کی خلقت کی حکمت واضح ہے۔

اہم نکات

۱۔ عالم تخلیق میں کوئی ابہام نہیں ہے: وَ کُلَّ شَیۡءٍ فَصَّلۡنٰہُ تَفۡصِیۡلًا ۔

۲۔ قدرتی وسائل سے سامان زندگی حاصل کرنا چاہیے: لِّتَبۡتَغُوۡا فَضۡلًا ۔۔۔۔


آیت 12