آیت 11
 

وَ یَدۡعُ الۡاِنۡسَانُ بِالشَّرِّ دُعَآءَہٗ بِالۡخَیۡرِ ؕ وَ کَانَ الۡاِنۡسَانُ عَجُوۡلًا﴿۱۱﴾

۱۱۔ اور انسان کو جس طرح خیر مانگنا چاہیے اسی انداز سے شر مانگتا ہے اور انسان بڑا جلد باز ہے۔

تفسیر آیات

مکہ والے حضورؐ سے بار بار یہ مطالبہ کرتے تھے کہ اگر تم سچے ہو تو وہ عذاب لے آؤ جس سے تم ہمیں ڈراتے رہتے ہو۔ اس طرح وہ رحمت خدا مانگنے کی بجائے عذاب خدا مانگتے ہیں۔ دوسرے فقرے میں اس حماقت کے پیچھے موجود محرک کا ذکر ہے۔ وہ ہے انسان کی عجلت پسندی۔ یہ خصلت انسان کو عزت کی جگہ ذلت، کامیابی کی جگہ ناکامی اور خیر کی بجائے شر کی طرف لے جاتی ہے۔ چنانچہ انسان کی بیشتر ناکامیوں کا سبب یہی عجلت پسندی ہے۔ عجلت پسندی کا مغلوب انسان زمینی حقائق کی جگہ ذہنی آرزوؤں پر چلتا ہے اور ناکام ہو جاتا ہے۔

سابقہ آیت کے ساتھ اس آیت کا ربط اس طرح ہے کہ یہ قرآن اس راہ کی ہدایت کرتا ہے جو بالکل سیدھی ہے اور اس پر چلنے والوں کو بشارت دیتا ہے لیکن یہ عجلت پسند انسان اللہ کی عطا کردہ اس خیر کی جگہ شر کی طلب میں نکلتا ہے اور اس قرآن سے ہدایت حاصل کر کے رحمت الٰہی کا منتظر رہنے کی جگہ جلد بازی سے کام لیتے ہوئے شر کے دامن میں پھنس جاتا ہے۔ اعاذنا اللّٰہ من ذلک ۔

اہم نکات

۱۔ انسان نادانی میں اپنی مصلحت کے خلاف دعا کر بیٹھتا ہے۔

۲۔ عجلت پسندی سے ناکامیوں کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔


آیت 11