آیت 16
 

وَ اِذَاۤ اَرَدۡنَاۤ اَنۡ نُّہۡلِکَ قَرۡیَۃً اَمَرۡنَا مُتۡرَفِیۡہَا فَفَسَقُوۡا فِیۡہَا فَحَقَّ عَلَیۡہَا الۡقَوۡلُ فَدَمَّرۡنٰہَا تَدۡمِیۡرًا﴿۱۶﴾

۱۶۔ اور جب ہم کسی بستی کو ہلاکت میں ڈالنا چاہتے ہیں تو اس کے عیش پرستوں کو حکم دیتے ہیں تو وہ اس بستی میں فسق و فجور کا ارتکاب کرتے ہیں، تب اس بستی پر فیصلہ عذاب لازم ہو جاتا ہے پھر ہم اسے پوری طرح تباہ کر دیتے ہیں۔

تشریح کلمات

مُتۡرَفِیۡہَا:

( ت ر ف ) الترفۃ عیش و عشرت میں فراخی اور وسعت کو کہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے اترف فلان فہو مترف ۔ وہ آسودہ حال اور کثرت دولت کی وجہ سے بدمست ہے۔

تفسیر آیات

جب کسی قوم پر تباہی آنے والی ہوتی ہے تو پہلے اس تباہی کے قدرتی اسباب و محرکات وجود میں آتے ہیں۔ قرآن کے مطابق ہر قوم پر تباہی اس کے مترفین ، مراعات یافتہ طبقے کی طرف سے آتی ہے۔ یہ طبقہ خواہشات پرستی میں بدمست ہوتا ہے۔ اس لیے وہ انسانی اور اخلاقی قدروں کو نہیں جانتا۔ وہ تمام تر وسائل اور سہولیات کو اپنا حق تصور کرتا ہے اور محروم طبقے کے حقوق کا ادراک نہیں کرتا۔ وہ حقوق جن کے بغیر معاشرہ قائم نہیں رہتا۔ یہاں سے باہمی بقاء کا توازن بگڑ جاتا ہے اوراقوام ہلاکت میں پڑ جاتی ہیں۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا:

اِلَیۡکَ ؕ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَاعۡلَمۡ اَنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ اَنۡ یُّصِیۡبَہُمۡ بِبَعۡضِ ذُنُوۡبِہِمۡ ۔۔۔۔ (۵ مائدہ: ۴۹)

اگر یہ منہ پھیر لیں تو جان لیجیے کہ اللہ نے ان کے بعض گناہوں کے سبب انہیں مصیبت میں مبتلا کرنے کا ارادہ کر رکھا ہے۔۔۔۔

سنت الٰہی یہ رہی ہے کہ جب کسی معاشرے کا خوشحال طبقہ فسق و فجور پر اتر آئے اور ظلم و ناانصافی کو روا رکھے تو پورا معاشرہ تباہ ہو جاتا ہے۔ جب دولت اور اقتدار خیانت کاروں کے ہاتھوں میں چلا جاتا ہے اور ظلم و ناانصافی اور فسق و فجور کو روکنے والا کوئی نہ ہو تو اس قوم کا تباہ ہونا قدرتی بات ہے۔

لہٰذا ان قدرتی اسباب و علل کے اثرات مرتب ہونے پر ارادہ خدا ازل سے قائم ہے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ فسق و فجور کا حکم نہیں دیتا۔ ایسا نہ تشریعاً ممکن ہے نہ تکویناً۔ تکویناً ایسا ممکن نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ فسق و فجور کے اسباب و علل فراہم کرنے میں اللہ پہل نہیں کرتا۔ جب بندے ظلم و سرکشی کے مرتکب ہوتے ہیں تو اس کے اثرات مرتب ہونے کی راہ میں اللہ کوئی رکاوٹ نہیں ڈالتا بلکہ ان کے گناہوں کی پاداش میں ایسا ہونے دیتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ ارادہ الٰہی طبیعی اسباب و علل کے ساتھ نافذ ہوتا ہے۔

۲۔ انسانی معاشروں کی تباہی اس کے خوشحال طبقے کی طرف سے آتی ہے۔

۳۔ دولت اور عیش پرستی فسق و فجور کا سرچشمہ ہے۔


آیت 16