آیات 18 - 19
 

مَنۡ کَانَ یُرِیۡدُ الۡعَاجِلَۃَ عَجَّلۡنَا لَہٗ فِیۡہَا مَا نَشَآءُ لِمَنۡ نُّرِیۡدُ ثُمَّ جَعَلۡنَا لَہٗ جَہَنَّمَ ۚ یَصۡلٰىہَا مَذۡمُوۡمًا مَّدۡحُوۡرًا﴿۱۸﴾

۱۸۔ جو شخص عجلت پسند ہے تو ہم جسے جو چاہیں اس دنیا میں اسے جلد دیتے ہیں پھر ہم نے اس کے لیے جہنم کو مقرر کیا ہے جس میں وہ مذموم اور راندہ درگاہ ہو کر بھسم ہو جائے گا۔

وَ مَنۡ اَرَادَ الۡاٰخِرَۃَ وَ سَعٰی لَہَا سَعۡیَہَا وَ ہُوَ مُؤۡمِنٌ فَاُولٰٓئِکَ کَانَ سَعۡیُہُمۡ مَّشۡکُوۡرًا﴿۱۹﴾

۱۹۔ اور جو شخص آخرت کا طالب ہے اور اس کے لیے جتنی سعی درکار ہے وہ اتنی سعی کرتا ہے اور وہ مومن بھی ہے تو ایسے لوگوں کی سعی مقبول ہو گی۔

تشریح کلمات

یَصۡلٰىہَا:

( ص ل ی ) الصلی ۔ آگ جلانے کے معنوں میں ہے۔ کہا جاتا ہے صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا۔

مَّدۡحُوۡرًا:

( د ح ر ) الدحر کے معنی دھتکار دینے اور دور کرنے کے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ مَنۡ کَانَ یُرِیۡدُ الۡعَاجِلَۃَ: یہ اس شخص کا ذکر ہے جو صرف طالب دنیا ہو اور آخرت پر ایمان نہ رکھتا ہو۔ ایسے شخص کے لیے فرمایا: جو شخص عجلت پسند ہو ہم بھی عجلت سے دے دیتے ہیں یہ اس کے لیے عذاب کا پیش خیمہ ہے۔

لیکن اگر کوئی آخرت کے لیے کھیتی کے عنوان سے طالب دنیا ہو تو یہ مذموم نہیں بلکہ دنیا سعادت اخروی کے لیے بہترین ذریعہ ہے۔ انبیاء، صلحاء و متقی لوگوں نے اسی دنیاوی زندگی سے عند اللہ مقام بنایا ہے۔ چنانچہ دوسرے جملے میں فرمایا:

۲۔ وَ مَنۡ اَرَادَ الۡاٰخِرَۃَ: اور جو شخص طالب آخرت ہو اور اس کے لیے مطلوبہ سعی بھی کرتا ہے تو اس کی اس سعی کی قدر دانی ہو جائے گی۔ ظاہر ہے یہ سعی اسی دنیاوی زندگی میں کرنا ہے۔ البتہ اس سعی کے ساتھ ایمان کا ہونا شرط ہے۔ اگر ایمان باللہ اور ایمان بالآخرہ نہ ہو تو سعی بھی وجود میں نہیں آئے گی۔

اہم نکات

۱۔ دنیا پرستوں کے لیے دنیا کا مل جانا ضروری نہیں ہے۔ کچھ لوگ خسرالدنیا و الآخرہ ہوتے ہیں : لِمَنۡ نُّرِیۡدُ ۔۔۔۔

۲۔ صرف ارادہ آخرت کافی نہیں بلکہ سعی بھی ضروری ہے۔ جب کہ طالب آخرت کے لیے آخرت کا ملنا ضروری ہے: کَانَ سَعۡیُہُمۡ مَّشۡکُوۡرًا اور دنیا بھی مل جایا کرتی ہے۔


آیات 18 - 19