وَ مَنۡ اَرَادَ الۡاٰخِرَۃَ وَ سَعٰی لَہَا سَعۡیَہَا وَ ہُوَ مُؤۡمِنٌ فَاُولٰٓئِکَ کَانَ سَعۡیُہُمۡ مَّشۡکُوۡرًا﴿۱۹﴾

۱۹۔ اور جو شخص آخرت کا طالب ہے اور اس کے لیے جتنی سعی درکار ہے وہ اتنی سعی کرتا ہے اور وہ مومن بھی ہے تو ایسے لوگوں کی سعی مقبول ہو گی۔

18۔ 19 یہ اس شخص کا ذکر ہے جو صرف طالب دنیا ہو اور آخرت پر ایمان نہ رکھتا ہو۔ ایسے شخص کے لیے فرمایا: جو شخص عجلت پسند ہو ہم بھی عجلت سے دے دیتے ہیں۔ یعنی ہم اس کے لیے دنیا کی نعمتوں میں فراوانی کرتے ہیں، نادان اس فراوانی نعمت کو دیکھ کر اسے کامیابی تصور کرتے ہیں، جبکہ درحقیقت یہ اس کے لیے نقمت اور عذاب کا پیش خیمہ ہے۔ لیکن اگر کوئی آخرت کے لیے کھیتی کے عنوان سے طالب دنیا ہو تو یہ مذموم نہیں ہے بلکہ دنیا سعادت اخروی کے لیے بہترین ذریعہ ہے۔ انبیاء، صلحاء اور متقین نے اسی دنیاوی زندگی سے عند اللہ مقام بنایا ہے۔ چنانچہ دوسرے جملے میں فرمایا: اور جو شخص طالب آخرت ہو، اس کے لیے مطلوبہ سعی بھی کرتا ہو تو اس کی سعی کی قدردانی ہو گی۔ ظاہر ہے یہ سعی اسی دنیاوی زندگی میں کرنا ہے۔ البتہ اس سعی کے ساتھ ایمان کا ہونا شرط ہے۔ اگر ایمان باللہ اور ایمان بالآخرہ نہ ہو تو سعی بھی وجود میں نہ آئے گی۔