اَمۡوَاتٌ غَیۡرُ اَحۡیَآءٍ ۚ وَ مَا یَشۡعُرُوۡنَ ۙ اَیَّانَ یُبۡعَثُوۡنَ﴿٪۲۱﴾

۲۱۔ وہ زندہ نہیں مردہ ہیں اور انہیں اتنا بھی معلوم نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے۔

اِلٰـہُکُمۡ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ۚ فَالَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَۃِ قُلُوۡبُہُمۡ مُّنۡکِرَۃٌ وَّ ہُمۡ مُّسۡتَکۡبِرُوۡنَ﴿۲۲﴾

۲۲۔ تمہارا معبود بس ایک ہی معبود ہے لیکن جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے ان کے دل (قبول حق کے لیے) منکر ہیں اور وہ تکبر کر رہے ہیں۔

22۔ اللہ کی وحدانیت پر ایمان اور آخرت پر ایمان باہم مربوط معلوم ہوتے ہیں۔ یعنی جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتا اور جزا و سزا کے نظام کا قائل نہیں ہے اس کے لیے اللہ کا وجود اور اس کائنات کی تخلیق ناقابل فہم ہو جاتے ہیں۔

لَاجَرَمَ اَنَّ اللّٰہَ یَعۡلَمُ مَا یُسِرُّوۡنَ وَ مَا یُعۡلِنُوۡنَ ؕ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الۡمُسۡتَکۡبِرِیۡنَ﴿۲۳﴾

۲۳۔ یہ حقیقت ہے کہ وہ جو کچھ پوشیدہ رکھتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں اللہ اسے جانتا ہے، وہ تکبر کرنے والوں کو یقینا پسند نہیں کرتا ۔

وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمۡ مَّا ذَاۤ اَنۡزَلَ رَبُّکُمۡ ۙ قَالُوۡۤا اَسَاطِیۡرُ الۡاَوَّلِیۡنَ ﴿ۙ۲۴﴾

۲۴۔ جب ان سے کہا جاتا ہے: تمہارے رب نے کیا نازل کیا ہے؟ تو کہتے ہیں: داستانہائے پارینہ۔

لِیَحۡمِلُوۡۤا اَوۡزَارَہُمۡ کَامِلَۃً یَّوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ۙ وَ مِنۡ اَوۡزَارِ الَّذِیۡنَ یُضِلُّوۡنَہُمۡ بِغَیۡرِ عِلۡمٍ ؕ اَلَا سَآءَ مَا یَزِرُوۡنَ﴿٪۲۵﴾

۲۵۔ (گویا) یہ لوگ قیامت کے دن اپنا سارا بوجھ اور کچھ ان کا بوجھ بھی اٹھانا چاہتے ہیں جنہیں وہ نادانی میں گمراہ کرتے ہیں دیکھو! کتنا برا بوجھ ہے جو یہ اٹھا رہے ہیں۔

25۔ خود گمراہ ہونے کے ساتھ یہ لوگ دوسروں کی گمراہی کے لیے سبب بن جاتے ہیں۔ اس طرح یہ لوگ اپنے گناہوں کے بوجھ کے علاوہ دوسروں کے گناہوں کا بھی بوجھ اٹھا رہے ہیں۔ چنانچہ حدیث میں آیا ہے: من سن سنۃ سیئۃ کان علیہ وزرھا و وزر من عمل بھا ۔ (بحار الانوار 71: 204) جو ایک برے کام کو رواج دیتا ہے، اس پر اس برائی کا بوجھ ہے اور اس پر عمل کرنے والوں کا بوجھ بھی اسی پر ہو گا۔

قَدۡ مَکَرَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ فَاَتَی اللّٰہُ بُنۡیَانَہُمۡ مِّنَ الۡقَوَاعِدِ فَخَرَّ عَلَیۡہِمُ السَّقۡفُ مِنۡ فَوۡقِہِمۡ وَ اَتٰىہُمُ الۡعَذَابُ مِنۡ حَیۡثُ لَا یَشۡعُرُوۡنَ﴿۲۶﴾

۲۶۔ ان سے پہلے لوگوں نے مکاریاں کی ہیں لیکن اللہ نے ان کی عمارت کو بنیاد سے اکھاڑ دیا، پس اوپر سے چھت ان پر آ گری اور انہیں وہاں سے عذاب نے آ لیا جہاں سے انہیں توقع نہ تھی۔

26۔ اسلامی تحریک کے خلاف کفر کی مکاریاں اور سازشیں قدیم سے اسی طرح رہی ہیں جس طرح آج مشرکین مکہ کی طرف سے ہو رہی ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ ان کی سازشیں خود ان کے خلاف کر دیتا ہے۔ چنانچہ دینی تحریکوں کے خلاف جو عمارت انہوں نے کھڑی کی تھی، یہی عمارت ان کی ہلاکت کا سبب بن گئی۔ اس آیت میں رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لیے نوید فتح ہے اور فتح کی نوعیت کی طرف بھی اشارہ ہو گیا۔ چنانچہ ان مشرکین نے اسلام کے خلاف جو جنگیں لڑیں، وہی جنگیں ان کی تباہی کا سبب بن گئیں۔

ثُمَّ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ یُخۡزِیۡہِمۡ وَ یَقُوۡلُ اَیۡنَ شُرَکَآءِیَ الَّذِیۡنَ کُنۡتُمۡ تُشَآقُّوۡنَ فِیۡہِمۡ ؕ قَالَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ اِنَّ الۡخِزۡیَ الۡیَوۡمَ وَ السُّوۡٓءَ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿ۙ۲۷﴾

۲۷۔ پھر اللہ انہیں قیامت کے دن رسوا کرے گا اور (ان سے) کہے گا: کہاں ہیں میرے وہ شریک جن کے بارے میں تم جھگڑتے تھے؟ (اس وقت) صاحبان علم کہیں گے: آج کافروں کے لیے یقینا رسوائی اور برائی ہے۔

27۔ روز قیامت جب مشرکین عالم شہود میں آ گئے ہوں گے، ان پر ان کے شرک کا بطلان عیاں ہو گیا ہو گا، اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ سوال ہو گا: کہاں ہیں وہ شریک جن کے بارے میں اہل توحید سے جھگڑتے تھے۔ ظاہر ہے مشرکین کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہو گا۔

الَّذِیۡنَ تَتَوَفّٰىہُمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ ظَالِمِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ ۪ فَاَلۡقَوُا السَّلَمَ مَا کُنَّا نَعۡمَلُ مِنۡ سُوۡٓءٍ ؕ بَلٰۤی اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌۢ بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ﴿۲۸﴾

۲۸۔ فرشتے جن کی روحیں اس حالت میں قبض کرتے ہیں کہ وہ اپنے نفس پر ظلم کر رہے ہوں تب وہ کافر تسلیم کا اظہار کریں گے (اور کہیں گے) ہم تو کوئی برا کام نہیں کرتے تھے، ہاں! جو کچھ تم کرتے تھے اللہ یقینا اسے خوب جانتا ہے۔

فَادۡخُلُوۡۤا اَبۡوَابَ جَہَنَّمَ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ فَلَبِئۡسَ مَثۡوَی الۡمُتَکَبِّرِیۡنَ﴿۲۹﴾

۲۹۔ پس اب جہنم کے دروازوں میں داخل ہو جاؤ جہاں تم ہمیشہ رہو گے، تکبر کرنے والوں کا ٹھکانا نہایت برا ہے۔

28۔ 29 ان کفار کا ذکر جاری ہے جو دینی تحریک کے خلاف سازشیں کرتے تھے۔ ان کی جان کنی کے وقت کی بات ہے، ابھی زندگی کی چند رمقیں باقی ہیں کہ حقیقت ان پر کھل گئی، حق و باطل کا راز منکشف ہو گیا۔ البتہ فرصت ان کے ہاتھ سے نکل چکی ہے۔ جان کنی سے پہلے نہ توبہ کی، نہ کفر چھوڑا۔ اس وقت وہ سر تسلیم خم کرتے ہیں، لیکن اب اس تسلیم و اطاعت کا کوئی فائدہ نہیں اور دنیا سے جانے سے پہلے ہی جہنم میں داخل ہونے کا حکم مل جاتا ہے۔

وَ قِیۡلَ لِلَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا مَاذَاۤ اَنۡزَلَ رَبُّکُمۡ ؕ قَالُوۡا خَیۡرًا ؕ لِلَّذِیۡنَ اَحۡسَنُوۡا فِیۡ ہٰذِہِ الدُّنۡیَا حَسَنَۃٌ ؕ وَ لَدَارُ الۡاٰخِرَۃِ خَیۡرٌ ؕ وَ لَنِعۡمَ دَارُ الۡمُتَّقِیۡنَ ﴿ۙ۳۰﴾

۳۰۔ اور متقین سے پوچھا جاتا ہے: تمہارے رب نے کیا نازل کیا ہے؟ وہ کہتے ہیں: بہترین چیز، نیکی کرنے والوں کے لیے اس دنیا میں بھی بھلائی ہے اور آخرت کا گھر تو بہترین ہے ہی اور اہل تقویٰ کے لیے یہ کتنا اچھا گھر ہے۔

30۔ قرآن کو داستان پارینہ کہنے والوں کے مقابلے میں اہل تقویٰ ہیں جو قرآن کو خیر محض جانتے ہیں۔ کفار کی پروپیگنڈا مہم کے جواب کے لیے اہل تقویٰ میدان عمل میں ہوتے ہیں اور لوگوں کو صحیح صورت حال سے آگاہ کرتے ہیں اور یہ نکتہ بھی سمجھاتے ہیں کہ اس قرآن میں خَیۡرٌ الدُّنۡیَا بِالۡاٰخِرَۃِ ہے۔