آیات 28 - 29
 

الَّذِیۡنَ تَتَوَفّٰىہُمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ ظَالِمِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ ۪ فَاَلۡقَوُا السَّلَمَ مَا کُنَّا نَعۡمَلُ مِنۡ سُوۡٓءٍ ؕ بَلٰۤی اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌۢ بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ﴿۲۸﴾

۲۸۔ فرشتے جن کی روحیں اس حالت میں قبض کرتے ہیں کہ وہ اپنے نفس پر ظلم کر رہے ہوں تب وہ کافر تسلیم کا اظہار کریں گے (اور کہیں گے) ہم تو کوئی برا کام نہیں کرتے تھے، ہاں! جو کچھ تم کرتے تھے اللہ یقینا اسے خوب جانتا ہے۔

فَادۡخُلُوۡۤا اَبۡوَابَ جَہَنَّمَ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ فَلَبِئۡسَ مَثۡوَی الۡمُتَکَبِّرِیۡنَ﴿۲۹﴾

۲۹۔ پس اب جہنم کے دروازوں میں داخل ہو جاؤ جہاں تم ہمیشہ رہو گے، تکبر کرنے والوں کا ٹھکانا نہایت برا ہے۔

تفسیر آیات

یہ آیت اور دیگر بعض آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ کافروں کا عذاب، نزع روح کے وقت سے شروع ہوتا ہے اور حالت نزع میں ان کو ان کی قسمت کا فیصلہ سنا دیا جاتا ہے۔

۱۔ الَّذِیۡنَ تَتَوَفّٰىہُمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ ظَالِمِیۡۤ: ان کافروں کا ذکر جاری ہے جو دینی تحریک کے خلاف سازشیں کرتے ہیں۔ ان کی حالت احتضار اور جان کنی کے وقت کی بات ہے۔ ابھی زندگی کی چند رمق باقی ہیں۔ ان پر حقیقت کھل گئی، ابھی وہ زیر زمین نہیں گئے، حق و باطل کا راز منکشف ہو گیا۔ البتہ فرصت ان کے ہاتھ سے نکل چکی ہے۔

۲۔ فَاَلۡقَوُا السَّلَمَ: فرشتے ان کی روح قبض کر رہے ہیں اور وہ حالت ظلم و کفر میں تھے۔ جان کنی سے پہلے توبہ کی نہ کفر چھوڑا۔ اس وقت وہ سرتسلیم خم کرتے ہیں لیکن فرصت ان کے ہاتھ سے نکل چکی ہے۔ اب اس تسلیم و اطاعت کا کوئی فائدہ نہ ہو گا اور دنیا سے جانے سے پہلے ہی جہنم میں داخل ہونے کا حکم مل جاتا ہے۔ بعض مفسرین کے نزدیک ان کو جہنم میں داخل ہونے کا حکم دینے والے اولوالعلم یعنی علماء ہوں گے۔ یہ قول آیت اعراف کے مطابق ہے۔

اہم نکات

۱۔ کافروں کو مرنے سے پہلے حق کا علم ہو جائے گا۔

۲۔ کافروں کو جان کنی کی حالت میں داخل جہنم ہونے کا حکم ملے گا۔

۳۔ جان کنی کی حالت میں ہی کافر ما بعد الموت حالات کا مشاہدہ کرتا ہے۔


آیات 28 - 29