جَنّٰتُ عَدۡنٍ یَّدۡخُلُوۡنَہَا تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ لَہُمۡ فِیۡہَا مَا یَشَآءُوۡنَ ؕ کَذٰلِکَ یَجۡزِی اللّٰہُ الۡمُتَّقِیۡنَ ﴿ۙ۳۱﴾

۳۱۔ یہ لوگ دائمی جنت میں داخل ہوں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، وہاں ان کے لیے جو چاہیں گے موجود ہو گا۔ اللہ اہل تقویٰ کو ایسا اجر دیتا ہے۔

الَّذِیۡنَ تَتَوَفّٰىہُمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ طَیِّبِیۡنَ ۙ یَقُوۡلُوۡنَ سَلٰمٌ عَلَیۡکُمُ ۙ ادۡخُلُوا الۡجَنَّۃَ بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ﴿۳۲﴾

۳۲۔ جن کی روحیں فرشتے پاکیزہ حالت میں قبض کرتے ہیں (اور انہیں) کہتے ہیں: تم پر سلام ہو! اپنے (نیک) اعمال کی جزا میں جنت میں داخل ہو جاؤ۔

32۔ اس کے مقابلے میں اہل تقویٰ کو حالت احتضار میں جنت میں داخل ہونے کا حکم مل جاتا ہے۔ چنانچہ اس جگہ ایک درس آموز روایت کا خلاصہ ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔

ابو بصیر سے مروی ہے کہ میرا ایک ہمسایہ مے نوشی کی محفلیں جماتا تھا۔ میں نے ہر چند نصیحتیں کیں لیکن وہ باز نہیں آیا۔ ایک دن اس نے کہا اگر آپ اپنے مولا (امام جعفر صادق علیہ السلام ) سے میرا تعارف کرا دیں تو ممکن ہے آپ علیہ السلام کے ذریعے اللہ مجھے بچا لے۔ میں جب امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس شخص کا حال بیان کیا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: اس سے کہنا جعفر بن محمد علیہ السلام کہتے ہیں تو اس مے نوشی کو ترک کرے تو میں اللہ کے حضور تیرے لیے جنت کا ضامن بنتا ہوں۔ واپس جا کر میں نے یہ پیغام اس کو سنایا تو وہ رویا اور چلا گیا۔ کچھ دنوں بعد اس نے مجھے بلایا تو دیکھا کہ وہ اپنے گھر کے عقب میں عریاں بیٹھا ہے۔ وہ بولا: اے ابو بصیر میں نے اپنے گھر سے سب کچھ نکال دیا ہے اور میرا یہ حال ہو گیا۔ کچھ دنوں کے بعد وہ بیمار ہو گیا اور احتضار کا وقت آگیا۔ اس پر غشی طاری ہوئی، ہوش میں آیا تو کہنے لگا: اے ابو بصیر! قد وفی صاحبک لنا ۔ آپ کے مولا نے میرے ساتھ اپنا وعدہ پورا کیا۔ پھر اس کی روح پرواز کر گئی۔ چنانچہ حج کے موقع پر جب میں نے امام علیہ السلام کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت مانگی تو مجھے دیکھتے ہی مولا نے فرمایا: اے ابو بصیر قد وفینا صاحبک ہم نے تمہارے ساتھی کے ساتھ اپنا وعدہ پورا کر دیا۔ (اصول الکافی 1: 474)

ہَلۡ یَنۡظُرُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ تَاۡتِیَہُمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ اَوۡ یَاۡتِیَ اَمۡرُ رَبِّکَ ؕ کَذٰلِکَ فَعَلَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ؕ وَ مَا ظَلَمَہُمُ اللّٰہُ وَ لٰکِنۡ کَانُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ یَظۡلِمُوۡنَ﴿۳۳﴾

۳۳۔ کیا یہ لوگ اس بات کے منتظر ہیں کہ فرشتے (ان کی جان کنی کے لیے) ان کے پاس آئیں یا آپ کے رب کا فیصلہ آئے؟ ان سے پہلوں نے بھی ایسا ہی کیا تھا، اللہ نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا بلکہ یہ خود اپنے آپ پر ظلم کر رہے ہیں۔

33۔ اس دین توحید کو سمجھانے کا جو بھی طریقہ ہو سکتا تھا وہ اختیار کیا گیا۔ نہ منطق میں کمی ہے، نہ استدلال میں نقص، نہ ہی حجت و برہان میں ضعف ہے۔ یہ لوگ پھر کس چیز کے انتظار میں ہیں؟ کیا یہ فرشتہ موت کے انتظار میں ہیں کہ حالت نزع میں حقیقت حال ان پر منکشف ہو جائے یا یہ نزول عذاب کے منتظر ہیں۔

فَاَصَابَہُمۡ سَیِّاٰتُ مَا عَمِلُوۡا وَ حَاقَ بِہِمۡ مَّا کَانُوۡا بِہٖ یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ﴿٪۳۴﴾

۳۴۔ آخرکار انہیں ان کے برے اعمال کی سزائیں ملیں اور جس چیز کا یہ لوگ مذاق اڑاتے تھے اسی نے انہیں گھیر لیا۔

وَ قَالَ الَّذِیۡنَ اَشۡرَکُوۡا لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ مَا عَبَدۡنَا مِنۡ دُوۡنِہٖ مِنۡ شَیۡءٍ نَّحۡنُ وَ لَاۤ اٰبَآؤُنَا وَ لَا حَرَّمۡنَا مِنۡ دُوۡنِہٖ مِنۡ شَیۡءٍ ؕ کَذٰلِکَ فَعَلَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۚ فَہَلۡ عَلَی الرُّسُلِ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِیۡنُ﴿۳۵﴾

۳۵۔ اور مشرکین کہتے ہیں: اگر اللہ چاہتا تو ہم اور ہمارے باپ دادا اس کے علاوہ کسی اور چیز کی پرستش نہ کرتے اور نہ اس کے حکم کے بغیر کسی چیز کو حرام قرار دیتے، ان سے پہلے کے لوگوں نے بھی ایسا ہی کیا تھا، تو کیا رسولوں پر واضح انداز میں تبلیغ کے سوا کوئی اور ذمہ داری ہے؟

35۔مشرکین کا ایک طرز فکر یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں اگر اللہ یہ چاہتا کہ اس کے سوا کسی کی پرستش نہ کی جائے تو ہم اللہ کے سوا کسی کی پرستش نہ کر پاتے، جبکہ اب ہم یہ کام کر رہے ہیں۔ لہٰذا اللہ نے اس کام سے ہم کو نہیں روکا۔ جواب میں فرمایا: اللہ نے اپنے رسولوں کے ذریعے تشریعی طور پر روکا ہے، البتہ اللہ نے اس سلسلے میں طاقت اور جبر استعمال نہیں کیا۔

وَ لَقَدۡ بَعَثۡنَا فِیۡ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوۡلًا اَنِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ وَ اجۡتَنِبُوا الطَّاغُوۡتَ ۚ فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ ہَدَی اللّٰہُ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ حَقَّتۡ عَلَیۡہِ الضَّلٰلَۃُ ؕ فَسِیۡرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ فَانۡظُرُوۡا کَیۡفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الۡمُکَذِّبِیۡنَ﴿۳۶﴾

۳۶۔ اور بتحقیق ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا ہے کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت کی بندگی سے اجتناب کرو، پھر ان میں سے بعض کو اللہ نے ہدایت دی اور بعض کے ساتھ ضلالت پیوست ہو گئی، لہٰذا تم لوگ زمین پر چل پھر کر دیکھو کہ تکذیب کرنے والوں کا کیا انجام ہوا تھا۔

اِنۡ تَحۡرِصۡ عَلٰی ہُدٰىہُمۡ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِیۡ مَنۡ یُّضِلُّ وَ مَا لَہُمۡ مِّنۡ نّٰصِرِیۡنَ﴿۳۷﴾

۳۷۔ اگر آپ کو ان کی ہدایت کی شدید خواہش ہو بھی تو اللہ انہیں ہدایت نہیں دیتا جنہیں وہ ضلالت میں ڈال چکا ہو اور نہ ہی کوئی ان کی مدد کرنے والا ہو گا ۔

37۔ اگرچہ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شفقت ہے کہ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لوگوں کی ہدایت کے متمنی ہوتے تھے، لیکن ہدایت و ضلالت کا ایک کلیہ ہے جس کے تحت جو ہدایت کی اہلیت رکھتا ہے وہ ہدایت پاتا ہے، جو اس کی اہلیت نہیں رکھتا اللہ اسے ہدایت نہیں دیتا اور اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ جسے اللہ اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے وہ ضلالت کی اتھاہ گہرائیوں میں گر جاتا ہے۔

وَ اَقۡسَمُوۡا بِاللّٰہِ جَہۡدَ اَیۡمَانِہِمۡ ۙ لَا یَبۡعَثُ اللّٰہُ مَنۡ یَّمُوۡتُ ؕ بَلٰی وَعۡدًا عَلَیۡہِ حَقًّا وَّ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۙ۳۸﴾

۳۸۔ اور یہ لوگ اللہ کی سخت قسمیں کھا کر کہتے ہیں: جو مر جاتا ہے اسے اللہ زندہ کر کے نہیں اٹھائے گا، کیوں نہیں (اٹھائے گا)؟ یہ ایک ایسا برحق وعدہ ہے جو اللہ کے ذمے ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

38۔ حیات بعد الموت، تخلیق، تکلیف اور آزمائش کا عقلی لازمہ ہے۔ اگر جرم و سزا کا کوئی دن نہ ہوتا تو مومن و کافر، ظالم اور مظلوم میں کوئی فرق نہ ہوتا۔ کیا جس نے انسانیت کے خون سے ہولی کھیلی ہو، اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جس نے انسانیت کی خدمت کی ہے۔ اگر ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے تو یہ زندگی ایک عبث اور کھلونا ہونا لازم آتا ہے۔

لِیُبَیِّنَ لَہُمُ الَّذِیۡ یَخۡتَلِفُوۡنَ فِیۡہِ وَ لِیَعۡلَمَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَنَّہُمۡ کَانُوۡا کٰذِبِیۡنَ﴿۳۹﴾

۳۹۔ تاکہ اللہ ان کے لیے وہ بات واضح طور پر بیان کرے جس میں یہ لوگ اختلاف کر رہے ہیں اور کافر لوگ بھی جان لیں کہ وہ جھوٹے تھے۔

اِنَّمَا قَوۡلُنَا لِشَیۡءٍ اِذَاۤ اَرَدۡنٰہُ اَنۡ نَّقُوۡلَ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ﴿٪۴۰﴾

۴۰۔ جب ہم کسی چیز کا ارادہ کر لیتے ہیں تو بے شک ہمیں اس سے یہی کہنا ہوتا ہے: ہو جا ! پس وہ ہو جاتی ہے ۔

40۔ اللہ تعالیٰ کے دو ارادے ہیں: ایک ارادہ تشریعی، یعنی وہ قانون اور شریعت سازی کے ذریعہ لوگوں سے چاہتا ہے کہ وہ اس قانون کی پابندی کریں۔ اللہ کے اس ارادے کی اطاعت بھی ہو سکتی ہے اور نافرمانی بھی۔ دوسرا ارادہ تکوینی۔ یہ عالم خلق و ایجاد سے مربوط ارادہ ہے۔ یہاں اللہ کا ارادہ فوراً نافذ العمل ہوتا ہے، بلکہ یہاں ارادہ اور ایجاد دو چیزیں نہیں ہیں، بلکہ اللہ کا ارادہ اور خلقت ایک ہیں۔ چنانچہ کن ایک تعبیر ہے، ورنہ ارادہ اور مراد میں کاف و نون کی بھی ضرورت نہیں ہے۔