آیات 24 - 25
 

وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمۡ مَّا ذَاۤ اَنۡزَلَ رَبُّکُمۡ ۙ قَالُوۡۤا اَسَاطِیۡرُ الۡاَوَّلِیۡنَ ﴿ۙ۲۴﴾

۲۴۔ جب ان سے کہا جاتا ہے: تمہارے رب نے کیا نازل کیا ہے؟ تو کہتے ہیں: داستانہائے پارینہ۔

لِیَحۡمِلُوۡۤا اَوۡزَارَہُمۡ کَامِلَۃً یَّوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ۙ وَ مِنۡ اَوۡزَارِ الَّذِیۡنَ یُضِلُّوۡنَہُمۡ بِغَیۡرِ عِلۡمٍ ؕ اَلَا سَآءَ مَا یَزِرُوۡنَ﴿٪۲۵﴾

۲۵۔ (گویا) یہ لوگ قیامت کے دن اپنا سارا بوجھ اور کچھ ان کا بوجھ بھی اٹھانا چاہتے ہیں جنہیں وہ نادانی میں گمراہ کرتے ہیں دیکھو! کتنا برا بوجھ ہے جو یہ اٹھا رہے ہیں۔

تشریح کلمات

اَسَاطِیۡرُ:

( س ط ر ) اسطورۃ کی جمع ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمۡ مَّا ذَاۤ اَنۡزَلَ رَبُّکُمۡ: ممکن ہے یہ مکہ کے اطراف میں رہنے والے خالی الذہن لوگ ہوں جو اہل مکہ سے پوچھتے ہیں: تمہارے ہاں اللہ کی طرف سے کوئی نبی آیا ہے، اس پر اللہ کیا نازل کر رہا ہے؟ جواب میں مشرکین کہتے تھے: کہاں اللہ کی طرف سے نازل ہو رہا ہے، صرف اگلوں کی من گھڑت داستانیں ہیں۔

۲۔ لِیَحۡمِلُوۡۤا اَوۡزَارَہُمۡ: اس طرح یہ لوگ اپنے گناہوں کے بوجھ کے علاوہ ان لوگوں کے گناہوں کا بوجھ بھی اٹھا رہے ہیں جنہیں یہ نادانی میں گمراہ کر رہے ہیں۔ حدیث میں آیا ہے:

من سن سنۃ سیئۃ کان علیہ وزرھا و وزرمن عمل بھا ۔۔۔۔ ( بحار الانوار ۷۱: ۲۰۴)

جو ایک برے کام کو رواج دے گا اس پر اس کا بوجھ اور اس پر عمل کرنے والوں کا بوجھ ہو گا۔ گناہ کا بوجھ۔

۳۔ اَلَا سَآءَ مَا یَزِرُوۡنَ: اپنے گناہوں کے علاوہ دوسروں کے گناہوں کا بوجھ بھی اٹھانے والے نہایت بدقسمت ہیں۔ قیامت کی ابدی زندگی میں وہ اس قدر عذاب کا مستحق ہوں گے جس قدر ان کے ذریعے لوگ گمراہ ہوئے ہیں۔ فرض کر لیتے ہیں اگر اس کی وجہ سے ستر افراد گمراہ ہوئے ہیں تو اس کے عذاب میں ستر گنا اضافہ ہوگا۔ کتنا بُرا اور کتنا بـڑا بوجھ یہ بدقسمت لوگ اٹھا رہے ہیں۔

اہم نکات

۱۔ حق کے خلاف پروپیگنڈہ مہم استکبار کی قدیم روایت ہے: اَسَاطِیۡرُ الۡاَوَّلِیۡنَ ۔

۲۔ جو لوگ دوسروں کو گمراہ کرتے ہیں ان پر اپنی گمرااہی کے بوجھ علاوہ ان کا بوجھ بھی پڑے گا جن کو گمراہ کیا ہے: وَ مِنۡ اَوۡزَارِ الَّذِیۡنَ ۔۔۔۔


آیات 24 - 25