آیات 30 - 31
 

وَ قِیۡلَ لِلَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا مَاذَاۤ اَنۡزَلَ رَبُّکُمۡ ؕ قَالُوۡا خَیۡرًا ؕ لِلَّذِیۡنَ اَحۡسَنُوۡا فِیۡ ہٰذِہِ الدُّنۡیَا حَسَنَۃٌ ؕ وَ لَدَارُ الۡاٰخِرَۃِ خَیۡرٌ ؕ وَ لَنِعۡمَ دَارُ الۡمُتَّقِیۡنَ ﴿ۙ۳۰﴾

۳۰۔ اور متقین سے پوچھا جاتا ہے: تمہارے رب نے کیا نازل کیا ہے؟ وہ کہتے ہیں: بہترین چیز، نیکی کرنے والوں کے لیے اس دنیا میں بھی بھلائی ہے اور آخرت کا گھر تو بہترین ہے ہی اور اہل تقویٰ کے لیے یہ کتنا اچھا گھر ہے۔

جَنّٰتُ عَدۡنٍ یَّدۡخُلُوۡنَہَا تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ لَہُمۡ فِیۡہَا مَا یَشَآءُوۡنَ ؕ کَذٰلِکَ یَجۡزِی اللّٰہُ الۡمُتَّقِیۡنَ ﴿ۙ۳۱﴾

۳۱۔ یہ لوگ دائمی جنت میں داخل ہوں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، وہاں ان کے لیے جو چاہیں گے موجود ہو گا۔ اللہ اہل تقویٰ کو ایسا اجر دیتا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ قرآن کو داستان ہائے پارینہ کہنے والوں کے مقابلے میں اہل تقویٰ ہیں جو قرآن کو خیر محض جانتے ہیں۔ کافروں کی پروپیگنڈا مہم کے جواب کے لیے اہل تقویٰ میدان عمل ہوتے ہیں ، لوگوں کو صحیح صورت حال سے آگاہ کرتے ہیں اور یہ نکتہ بھی سمجھاتے ہیں کہ اس قرآن میں خیر الدینا و الآخرۃ ہے۔ دارین کی سعادت ہے۔ جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابتدائے بعثت میں دعوت ذوالعشیرۃ کے موقع پر فرمایا:

انی قد جئتکم بخیر الدینا والآخرۃ ۔ (بحار الانوار ۳۸: ۲۲۳)

میں تمہارے پاس دنیا و آخرت دونوں کی بھلائی لے کر آیا ہوں۔

۲۔ وَ لَدَارُ الۡاٰخِرَۃِ خَیۡرٌ: آخرت کا گھر چونکہ ابدی زندگی کے لیے ہو گا لہٰذا آخرت کے گھر کے مقابلے میں کوئی اور بھلائی نہیں ہو سکتی۔

۳۔ وَ لَنِعۡمَ دَارُ الۡمُتَّقِیۡنَ: چونکہ قبول اعمال کا دار ومدار تقویٰ پر ہے:

اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الۡمُتَّقِیۡنَ ( ۵ المائدۃ:۲۷)

اللہ تو صرف تقویٰ رکھنے والوں سے قبول کرتا ہے۔

لہٰذا متقین وہ لوگ ہوں گے جن کے اعمال قبول ہوگئے ہوں۔ حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ہے:

لَا یَقِلُّ عَمَلٌ مَعَ التَّقْویٰ وَکَیْفَ یَقِلُّ مَا یُتَقَبَّلُ ۔ (نہج البلاغۃ۔ کلمات قصار: ۹۵)

جو عمل تقویٰ کے ساتھ انجام دیا جائے وہ تھوڑا نہیں سمجھا جا سکتا اور قبول ہونے والا عمل تھوڑا کیونکر ہو سکتا ہے؟

۳۔ لَہُمۡ فِیۡہَا مَا یَشَآءُوۡنَ: انہیں جنت میں نعمتوں کی وصولی، دنیا کی طرح علل و اسباب کے ذریعے نہیں ہو گی۔ اس کے لیے کوئی محنت کرنی نہیں پڑے گی بلکہ اہل جنت کا ارادہ نافذ ہو گا۔ مَا یَشَآءُوۡنَ ، چاہنے کی دیر ہے کہ نعمت آمادہ ہو گی۔

اہم نکات

۱۔ اس دنیا کی خوشحالی بھی دینی مقاصد میں شامل ہے: فِیۡ ہٰذِہِ الدُّنۡیَا حَسَنَۃٌ ۔۔۔۔

۲۔ نیکی، سعادت دارین کا ذریعہ ہے: لِلَّذِیۡنَ اَحۡسَنُوۡا ۔۔۔۔


آیات 30 - 31