یُنۡۢبِتُ لَکُمۡ بِہِ الزَّرۡعَ وَ الزَّیۡتُوۡنَ وَ النَّخِیۡلَ وَ الۡاَعۡنَابَ وَ مِنۡ کُلِّ الثَّمَرٰتِ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوۡمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ﴿۱۱﴾

۱۱۔ جس سے وہ تمہارے لیے کھیتیاں، زیتون کھجور، انگور اور ہر قسم کے پھل اگاتا ہے، غور و فکر سے کام لینے والوں کے لیے ان چیزوں میں یقینا نشانی ہے۔

وَ سَخَّرَ لَکُمُ الَّیۡلَ وَ النَّہَارَ ۙ وَ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ ؕ وَ النُّجُوۡمُ مُسَخَّرٰتٌۢ بِاَمۡرِہٖ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّعۡقِلُوۡنَ ﴿ۙ۱۲﴾

۱۲۔ اور اس نے تمہارے لیے رات اور دن اور سورج اور چاند کو مسخر کیا ہے اور ستارے بھی اس کے حکم سے مسخر ہیں،عقل سے کام لینے والوں کے لیے ان چیزوں میں یقینا نشانیاں ہیں۔

10 تا 12۔ مذکورہ پھلوں کی فراہمی اہل فکر کو بتاتی ہے کہ یہ اندھے اتفاق اور ناداں بے شعور طبیعیت کا کام نہیں ہے بلکہ ان چیزوں کی فراہمی کے پیچھے ایک شعور ایک ارادہ کارفرما ہے، ورنہ آسمان سے برسنے والا پانی انسان اور روئے زمین پر موجود باقی چیزوں کے لیے مفید و مناسب نہ ہوتا۔ زمین سے اگنے والی چیزوں کا انسان اور باقی جانوروں کے مزاج اور طبیعت کے عین مطابق اور مفید ہونا بھی ضروری نہ تھا۔ لہٰذا ان مختلف چیزوں کا ایک دوسرے کے لیے ضروری ہونا اور باہم موافق طبع ہونا بتاتا ہے کہ ان چیزوں کی تخلیق کے پیچھے ایک حکیمانہ ذہن کارفرما ہے۔ کھیتی کی افادیت اور زیتون، کھجور اور انگور کے انسانی جسم کی ساخت و بافت کے ساتھ نہایت سازگار ہونے کی وجہ سے ممکن ہے ان کا خاص طور پر ذکر کیا ہو۔

وَ مَا ذَرَاَ لَکُمۡ فِی الۡاَرۡضِ مُخۡتَلِفًا اَلۡوَانُہٗ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوۡمٍ یَّذَّکَّرُوۡنَ﴿۱۳﴾

۱۳۔ اور تمہارے لیے زمین میں رنگ برنگ کی جو مختلف چیزیں اگائی ہیں نصیحت حاصل کرنے والوں کے لیے ان میں یقینا نشانی ہے۔

13۔ یہاں وجود اور وحدانیت خدا پر تین دلائل دیے گئے ہیں: پہلی دلیل نباتات سے۔ یہ اہل فکر کے لیے ہے۔ دوسری دلیل فلکیات سے۔ یہ اہل عقل کے لیے ہے۔ تیسری دلیل موجودات ارضی کی اقسام و انواع سے۔ یہ اہل نصیحت کے لیے ہے۔

وَ ہُوَ الَّذِیۡ سَخَّرَ الۡبَحۡرَ لِتَاۡکُلُوۡا مِنۡہُ لَحۡمًا طَرِیًّا وَّ تَسۡتَخۡرِجُوۡا مِنۡہُ حِلۡیَۃً تَلۡبَسُوۡنَہَا ۚ وَ تَرَی الۡفُلۡکَ مَوَاخِرَ فِیۡہِ وَ لِتَبۡتَغُوۡا مِنۡ فَضۡلِہٖ وَ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ﴿۱۴﴾

۱۴۔ اور اسی نے (تمہارے لیے) سمندر کو مسخر کیا تاکہ تم اس سے تازہ گوشت کھاؤ اور اس سے زینت کی وہ چیزیں نکالو جنہیں تم پہنتے ہو اور آپ دیکھتے ہیں کہ کشتی سمندر کو چیرتی ہوئی چلی جاتی ہے تاکہ تم اللہ کا فضل (روزی) تلاش کرو اور شاید تم شکر گزار بنو۔

وَ اَلۡقٰی فِی الۡاَرۡضِ رَوَاسِیَ اَنۡ تَمِیۡدَ بِکُمۡ وَ اَنۡہٰرًا وَّ سُبُلًا لَّعَلَّکُمۡ تَہۡتَدُوۡنَ ﴿ۙ۱۵﴾

۱۵۔ اور اس نے زمین میں پہاڑوں کو گاڑ دیا تاکہ زمین تمہیں لے کر ڈگمگا نہ جائے اور نہریں جاری کیں اور راستے بنائے تاکہ تم راہ پاتے رہو۔

15۔ قرآن متعدد آیات میں اس بات کو بڑی وضاحت سے بیان فرما تا ہے کہ پہاڑ کی تخلیق کا اہم فائدہ یہ ہے کہ اس سے زمین میں اضطرابی حالت ختم ہو جاتی ہے۔ ممکن ہے یہ اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ زمین کے اندرون طبقات میں موجود لاوا آتش فشانی کے ذریعہ سطح زمین پر آتا ہے اور پہاڑ بن جاتا ہے، ورنہ زیر زمین موجود لاوا اور آتشیں مواد سے زمین ڈھلک جاتی اور ڈگمگانے لگتی۔ دوسرا اہم فائدہ پہاڑوں سے بہنے والے پانی سے وجود میں آنے والی نہریں ہیں جن سے نشیبی علاقے سیراب ہو جاتے ہیں۔ پہاڑوں کے بارے میں مزید تشریح کے لیے ملاحظہ فرمائیں سورہ نبا آیت 7۔

وَ عَلٰمٰتٍ ؕ وَ بِالنَّجۡمِ ہُمۡ یَہۡتَدُوۡنَ﴿۱۶﴾

۱۶۔ اور علامتیں بھی (بنائیں) اور ستاروں سے بھی لوگ راستہ معلوم کر لیتے ہیں۔

اَفَمَنۡ یَّخۡلُقُ کَمَنۡ لَّا یَخۡلُقُ ؕ اَفَلَا تَذَکَّرُوۡنَ﴿۱۷﴾

۱۷۔ کیا وہ جو پیدا کرتا ہے اس جیسا ہے جو پیدا نہیں کرتا؟ کیا تم غور نہیں کرتے؟

17۔ ایک واضح حقیقت اور ایک نہایت سادہ سی بات، جسے ہر کوئی سمجھ سکتا ہے، یہ ہے کہ جو خلق کرتا ہے، وہ اس کی طرح تو نہیں ہو سکتا جو خلق نہیں کرتا۔ خطاب مشرکوں سے ہے کہ تم ایسی واضح باتیں بھی نہیں سمجھ سکتے، اللہ اور بتوں کے ایک جیسے اختیارات کے قائل ہو۔

وَ اِنۡ تَعُدُّوۡا نِعۡمَۃَ اللّٰہِ لَا تُحۡصُوۡہَا ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَغَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۱۸﴾

۱۸۔ اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنے لگو تو انہیں شمار نہ کر سکو گے، اللہ یقینا بڑا درگزر کرنے والا، مہربان ہے۔

18۔ اللہ کی بے پایاں نعمتوں کا احاطہ یہ انسان نہیں کر سکتا۔ یہ غافل انسان تو ان نعمتوں میں سے موٹی موٹی نعمتوں کی طرف صرف اس وقت متوجہ ہوتا ہے جب اس سے یہ نعمت چھن جاتی ہے۔ اس کے باوجود اللہ غفور و رحیم ہے، اللہ کا غفران اور درگز دیکھیے کہ انسان ان بے شمار نعمتوں میں مالا مال رہنے کے باوجود اللہ کے حق میں اس قدر گستاخ اور نافرمان ہوتا ہے کہ کبھی تو اللہ کے وجود ہی کا منکر ہو جاتا ہے، پھر بھی اللہ درگز فرماتا ہے اور رحم کا یہ عالم ہے کہ ایسے ناشکرے انسان کو بھی برابر نعمتوں کی ارزانی فرماتا رہتا ہے۔

وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ مَا تُسِرُّوۡنَ وَ مَا تُعۡلِنُوۡنَ﴿۱۹﴾

۱۹۔ اور اللہ سب سے باخبر ہے جو تم پوشیدہ رکھتے ہو اور جو ظاہر کرتے ہو۔

19۔ اللہ ان مشرکین کے حال سے بے خبر ہونے کی بنیاد پر تو نعمتیں فراہم نہیں کرتا، بلکہ وہ ان کے دلوں کی بات سے بھی واقف ہے نیز ربوبیت کے لائق تو صرف وہ ذات ہے جو خالق ہے، منعم ہے اور انسان کے اندرونی حالات پر علم و آگہی رکھتی ہے۔ جبکہ جن بتوں کی یہ لوگ پرستش کرتے ہیں نہ تو وہ خالق ہیں، بلکہ وہ خود مخلوق ہیں۔ نہ منعم ہیں نہ ان کو انسان کے حالات پر آگہی ہے۔

وَ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ لَا یَخۡلُقُوۡنَ شَیۡئًا وَّ ہُمۡ یُخۡلَقُوۡنَ ﴿ؕ۲۰﴾

۲۰۔ اور اللہ کو چھوڑ کر جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں وہ کسی چیز کو خلق نہیں کر سکتے بلکہ خود مخلوق ہیں۔