آیت 68
 

وَ لَمَّا دَخَلُوۡا مِنۡ حَیۡثُ اَمَرَہُمۡ اَبُوۡہُمۡ ؕ مَا کَانَ یُغۡنِیۡ عَنۡہُمۡ مِّنَ اللّٰہِ مِنۡ شَیۡءٍ اِلَّا حَاجَۃً فِیۡ نَفۡسِ یَعۡقُوۡبَ قَضٰہَا ؕ وَ اِنَّہٗ لَذُوۡ عِلۡمٍ لِّمَا عَلَّمۡنٰہُ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ﴿٪۶۸﴾

۶۸۔اور جب وہ داخل ہوئے جہاں سے ان کے والد نے انہیں حکم دیا تھا تو کوئی انہیں اللہ سے بچانے والا نہ تھا مگر یہ کہ یعقوب کے دل میں ایک خواہش تھی جسے انہوں نے پورا کر دیا اور یعقوب یقینا صاحب علم تھے اس لیے کہ ہم نے انہیں علم دیا تھا لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لَمَّا دَخَلُوۡا مِنۡ حَیۡثُ اَمَرَہُمۡ: اولاد یعقوب اپنے والد کی ہدایات کے مطابق مختلف دروازوں سے داخل ہوئی۔ جس مقصد کے لیے یہ تدبیر اپنائی گئی تھی وہ یہ تھا کہ ان کے ساتھ کوئی سانحہ پیش نہ آئے لیکن یعقوب علیہ السلام کی یہ تدبیر اگر اللہ کے فیصلے کے ساتھ متصادم ہو تو پھر تدبیر کارآمد نہیں ہوتی

۲۔ مَا کَانَ یُغۡنِیۡ عَنۡہُمۡ: کیونکہ تدبیر اللہ سے بے نیاز نہیں کرتی۔

۳۔ اِلَّا حَاجَۃً فِیۡ نَفۡسِ: پھر یہ تدبیر کیوں اختیار کی گئی؟ جواب ہے یہ تدبیر، تسکین نفس کے لیے اور اس امید سے اختیار کی گئی کہ شاید تدبیر اللہ کے فیصلے کے ساتھ متصادم نہ ہو بلکہ ممکن ہے یہ تدبیر اللہ کی مشیت کے مطابق اور مؤثر ہو۔

۴۔ وَ اِنَّہٗ لَذُوۡ عِلۡمٍ: یعقوب علیہ السلام کو اس بات کا علم تھا کہ تدبیر اللہ سے بے نیاز نہیں کرتی تاہم تدبیر اور حفاظت کے ظاہری علل واسباب اختیار نہ کرنا بھی درست نہیں ہے کیونکہ اللہ اگر چاہے تو تدبیر مؤثر ہوتی ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام اس نکتے کو جانتے تھے۔ ( ھذا ما فھمناہ بعد التدبر فی الایۃ ) بینما اقوال المفسرین فیہا مفطربۃ ۔

اہم نکات

۱۔ بچاؤ کے لیے تدابیر اختیار کرنی چاہئیں۔


آیت 68