آیت 66
 

قَالَ لَنۡ اُرۡسِلَہٗ مَعَکُمۡ حَتّٰی تُؤۡتُوۡنِ مَوۡثِقًا مِّنَ اللّٰہِ لَتَاۡتُنَّنِیۡ بِہٖۤ اِلَّاۤ اَنۡ یُّحَاطَ بِکُمۡ ۚ فَلَمَّاۤ اٰتَوۡہُ مَوۡثِقَہُمۡ قَالَ اللّٰہُ عَلٰی مَا نَقُوۡلُ وَکِیۡلٌ﴿۶۶﴾

۶۶۔ (یعقوب نے) کہا: میں اسے ہرگز تمہارے ساتھ نہیں بھیجوں گا جب تک کہ تم اللہ کے ساتھ عہد نہ کرو کہ تم اسے میرے پاس ضرور واپس لاؤ گے مگر یہ کہ تم (کسی مشکل میں) گھیر لیے جاؤ پھر جب انہوں نے اپنا عہد دے دیا تو یعقوب نے کہا: ہم جو بات کر رہے ہیں اس پر اللہ ضامن ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ قَالَ لَنۡ اُرۡسِلَہٗ مَعَکُمۡ: یہ عہد و میثاق ان باتوں کے بارے میں ہے جو انسان کے دائرۂ اختیار میں ہیں جیسا کہ ان لوگوں نے جان بوجھ کر یوسف علیہ السلام کے ساتھ کیا تھا۔

۲۔ اِلَّاۤ اَنۡ یُّحَاطَ بِکُمۡ: اگر بامر مجبوری اس کی خلاف ورزی ہو گئی تو قابل درگزر ہو گی۔ یہ استثنیٰ ایک پیغمبری و پدری شفقت ہے کیونکہ اس زمانے میں کنعان سے مصر کا سفر خطرے سے خالی نہ تھا اور سفر بھی دراز تھا۔

۳۔ فَلَمَّاۤ اٰتَوۡہُ مَوۡثِقَہُمۡ: عہد و پیمان ملنے کے بعد حضرت یعقوب علیہ السلام نے اللہ پر توکل کا اظہار کیا کیونکہ توکل کا مطلب اسباب و علل سے بے نیازی نہیں ہے بلکہ توکل کا مطلب یہ ہے کہ صرف اسباب و علل کافی نہ سمجھے بلکہ ان کے ماوراء ارادہ الٰہی درکار ہوتا ہے۔ وہی قابل بھروسا ہے۔

اہم نکات

۱۔ عہد و پیمان اختیاری امور میں ہوتا ہے۔

۲۔ اسباب و وسائل کے بعد توکل کیا جاتا ہے۔


آیت 66