بنیامین کو مصر لانے کی تدابیر


فَاِنۡ لَّمۡ تَاۡتُوۡنِیۡ بِہٖ فَلَا کَیۡلَ لَکُمۡ عِنۡدِیۡ وَ لَا تَقۡرَبُوۡنِ ﴿۶۰﴾

۶۰۔ پس اگر تم اس بھائی کو نہ لاؤ گے تو میرے پاس سے نہ تو تمہیں کوئی غلہ ملے گا اور نہ ہی تم میرے نزدیک آنا۔

60۔ ممکن ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے ان کے ساتھ اس طرح بات چلائی ہو کہ بنیامین کا ذکر آئے۔

بنیامین کو اپنے پاس لانے کے لیے حضرت یوسف علیہ السلام نے کئی طریقے استعمال کیے۔ غلہ پورا دیا، بہترین مہمان نوازی کی، آئندہ غلہ نہ دینے کی دھمکی دی اور غلہ کی قیمت واپس کی۔

قَالُوۡا سَنُرَاوِدُ عَنۡہُ اَبَاہُ وَ اِنَّا لَفٰعِلُوۡنَ﴿۶۱﴾

۶۱۔ انہوں نے کہا: ہم اس کے والد سے اسے طلب کریں گے اور ہم ایسا کر کے رہیں گے۔

وَ قَالَ لِفِتۡیٰنِہِ اجۡعَلُوۡا بِضَاعَتَہُمۡ فِیۡ رِحَالِہِمۡ لَعَلَّہُمۡ یَعۡرِفُوۡنَہَاۤ اِذَا انۡقَلَبُوۡۤا اِلٰۤی اَہۡلِہِمۡ لَعَلَّہُمۡ یَرۡجِعُوۡنَ﴿۶۲﴾

۶۲۔ اور یوسف نے اپنے خدمتگاروں سے کہا: ان کی پونجی (جو غلے کی قیمت تھی) انہی کے سامان میں رکھ دو تاکہ جب وہ پلٹ کر اپنے اہل و عیال کی طرف جائیں تو اسے پہچان لیں، اس طرح ممکن ہے وہ واپس آجائیں۔

62۔ اس زمانے میں معاملات مال کے بدلے مال کی بنیاد پر ہوتے تھے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے ان کا مال غلّے کے ساتھ واپس کر دیا۔

فَلَمَّا رَجَعُوۡۤا اِلٰۤی اَبِیۡہِمۡ قَالُوۡا یٰۤاَبَانَا مُنِعَ مِنَّا الۡکَیۡلُ فَاَرۡسِلۡ مَعَنَاۤ اَخَانَا نَکۡتَلۡ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ﴿۶۳﴾

۶۳۔ پھر جب وہ اپنے والد کے پاس واپس گئے تو کہنے لگے: اے ہمارے ابا! ہمارے لیے غلے کی بندش ہو گئی لہٰذا آپ ہمارے بھائی کو ہمارے ساتھ بھیج دیجئے تاکہ ہم غلہ حاصل کریں اور بے شک ہم بھائی کی حفاظت کریں گے۔

قَالَ ہَلۡ اٰمَنُکُمۡ عَلَیۡہِ اِلَّا کَمَاۤ اَمِنۡتُکُمۡ عَلٰۤی اَخِیۡہِ مِنۡ قَبۡلُ ؕ فَاللّٰہُ خَیۡرٌ حٰفِظًا ۪ وَّ ہُوَ اَرۡحَمُ الرّٰحِمِیۡنَ﴿۶۴﴾

۶۴۔ یعقوب بولے: کیا میں اس کے بارے میں تم پر اسی طرح اعتماد کروں جس طرح اس سے پہلے اس کے بھائی (یوسف) کے بارے میں کیا تھا ؟ اللہ بہترین محافظ ہے اور وہ سب سے بہترین رحم کرنے والا ہے۔

63۔ 64 سیاق آیت سے مفہوم ہوتا ہے کہ بیٹوں نے سب سے پہلے حضرت یعقوب کو آئندہ غلہ کی بندش کی خبر سنائی اور بنیامین کو آئندہ ان کے ہمراہ مصر بھیجنے پر اصرار کیا۔ حضرت یعقوب نے ان کو یاد دلایا کہ تم نے یوسف کے ساتھ جو سلوک کیا ہے اس سے تم پر اعتماد ختم ہوا ہے اگرچہ یوسف کا بہترین محافظ اللہ ہے لیکن تم نے اپنی بداعتمادی ظاہر کر دی ہے۔

وَ لَمَّا فَتَحُوۡا مَتَاعَہُمۡ وَجَدُوۡا بِضَاعَتَہُمۡ رُدَّتۡ اِلَیۡہِمۡ ؕ قَالُوۡا یٰۤاَبَانَا مَا نَبۡغِیۡ ؕ ہٰذِہٖ بِضَاعَتُنَا رُدَّتۡ اِلَیۡنَا ۚ وَ نَمِیۡرُ اَہۡلَنَا وَ نَحۡفَظُ اَخَانَا وَ نَزۡدَادُ کَیۡلَ بَعِیۡرٍ ؕ ذٰلِکَ کَیۡلٌ یَّسِیۡرٌ﴿۶۵﴾

۶۵۔اور جب انہوں نے اپنا سامان کھولا تو دیکھا ان کی پونجی انہیں واپس کر دی گئی کہنے لگے:اے ہمارے ابا! ہمیں اور کیا چاہیے؟دیکھیے! ہماری یہ پونجی ہمیں واپس کر دی گئی ہے اور ہم اپنے اہل و عیال کے لیے غلہ لائیں گے اور اپنے بھائی کی حفاظت بھی کریں گے اور ایک اونٹ کا بوجھ غلہ زیادہ لائیں گے اور وہ غلہ آسانی سے (حاصل) ہو جائے گا۔

65۔ جب دیکھا کہ یوسف علیہ السلام نے غلہ کی قیمت بھی واپس کی ہے تو یہ بات مزید باعث اطمینان ہو گئی کہ ایسے مہربان شخص کے پاس بنیامین کو لے کر جانے میں کوئی باک نہیں ہے۔ اس سے اولاد یعقوب کے مؤقف میں تقویت آ گئی اور انہوں نے اپنے مؤقف کی حمایت میں مزید چند تاکیدی باتوں کا اضافہ کیا۔ اول یہ کہ بنیامین کے بھیجنے سے اہل و عیال کے لیے غلہ مل جائے گا۔ دوم یہ کہ ایسے شخص کے پاس جانے میں ہمیں تحفظ ہے۔ سوم یہ کہ بنیامین کے جانے سے ایک بار شتر کا اضافہ ہو جائے گا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام غلہ کی تقسیم ایک شتر کے حساب سے کرتے تھے اور راشننگ کا نظام نافذ تھا۔ چہارم یہ کہ بنیامین کے جانے سے اعتماد بحال ہو گا اور ان سب چیزوں کا حصول آسان ہو جائے گا۔