آیت 67
 

وَ قَالَ یٰبَنِیَّ لَا تَدۡخُلُوۡا مِنۡۢ بَابٍ وَّاحِدٍ وَّ ادۡخُلُوۡا مِنۡ اَبۡوَابٍ مُّتَفَرِّقَۃٍ ؕ وَ مَاۤ اُغۡنِیۡ عَنۡکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ مِنۡ شَیۡءٍ ؕ اِنِ الۡحُکۡمُ اِلَّا لِلّٰہِ ؕ عَلَیۡہِ تَوَکَّلۡتُ ۚ وَ عَلَیۡہِ فَلۡیَتَوَکَّلِ الۡمُتَوَکِّلُوۡنَ﴿۶۷﴾

۶۷۔ اور یعقوب نے کہا: بیٹو! تم سب ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ الگ الگ دروازوں سے داخل ہونا اور میں اللہ کے مقابلے میں تمہارے کچھ بھی کام نہیں آ سکتا، حکم صرف اللہ ہی کا چلتا ہے، اسی پر میں نے بھروسا کیا اور بھروسا کرنے والوں کو اسی پر بھروسا کرنا چاہیے۔

تفسیر آیات

۱۔ لَا تَدۡخُلُوۡا مِنۡۢ بَابٍ وَّاحِدٍ: یہ ہدایات شہر پناہ کے دروازے سے داخل ہونے کے لیے دی گئی تھیں یا دربار میں داخل ہونے کے لیے؟

آیت میں اس پر کوئی خاص قرینہ نہیں ہے نیز ان ہدایات کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما تھے؟ اس پر بھی اس آیت میں کوئی شاہد نہیں ہے۔ البتہ یہ بات یقینی ہے کہ یہ ان کے تحفظ کے لیے تدبیر ہے۔ ممکن ہے چشم بد سے تحفظ کے لیے ہو یا حسد کرنے والوں سے یا کسی ناگہاں واقعہ سے، جس کا ایک اجمالی احساس حضرت یعقوب علیہ السلام کو ہوا ہو گا کہ کہیں اس سفر میں کچھ اور بیٹے باپ سے بچھڑ نہ جائیں۔

اس احساس خطر کی وجہ سے حضرت یعقوب علیہ السلام نے ایک تدبیر سوچی کہ وہ ایسی حالت میں شہر میں داخل نہ ہوں کہ نظریں ان کی طرف جذب ہو جائیں اور ان کا شہر میں آنا وہاں کے لوگوں کو محسوس ہو جائے بلکہ متفرق دروازوں سے غیر محسوس طریقے سے داخل ہو جائیں۔ بعض یہ خیال کرتے ہیں کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے ایسا کرنے کا حکم اس لیے دیا کہ اہل مصر ان کو قبائلی لوٹ مار کرنے والے نہ سمجھیں۔

۲۔ اِنِ الۡحُکۡمُ اِلَّا لِلّٰہِ: پھر فرمایا: یہ بچاؤ کی ایک تدبیر ضرور ہے مگر فیصلہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ یہ تدبیریں اس وقت مؤثر ہوتی ہیں جب اللہ چاہے۔ لہٰذا ہمیں تدبیریں کرنی چاہئیں لیکن یہ تدبیریں مستقل مؤثر نہیں ہیں بلکہ یہ اس وقت مؤثر ہیں جب اللہ چاہے۔

اہم نکات

۱۔ انسان کو تدبیر بھی کرنی چاہیے توکل بھی۔ تدبیر توکل کے منافی نہیں ہے۔

۲۔ تدبیر اس وقت مؤثر ہوتی ہے جب اللہ چاہے۔ لہٰذا تدبیر میں توکل ہے۔


آیت 67