قَالَ لَنۡ اُرۡسِلَہٗ مَعَکُمۡ حَتّٰی تُؤۡتُوۡنِ مَوۡثِقًا مِّنَ اللّٰہِ لَتَاۡتُنَّنِیۡ بِہٖۤ اِلَّاۤ اَنۡ یُّحَاطَ بِکُمۡ ۚ فَلَمَّاۤ اٰتَوۡہُ مَوۡثِقَہُمۡ قَالَ اللّٰہُ عَلٰی مَا نَقُوۡلُ وَکِیۡلٌ﴿۶۶﴾

۶۶۔ (یعقوب نے) کہا: میں اسے ہرگز تمہارے ساتھ نہیں بھیجوں گا جب تک کہ تم اللہ کے ساتھ عہد نہ کرو کہ تم اسے میرے پاس ضرور واپس لاؤ گے مگر یہ کہ تم (کسی مشکل میں) گھیر لیے جاؤ پھر جب انہوں نے اپنا عہد دے دیا تو یعقوب نے کہا: ہم جو بات کر رہے ہیں اس پر اللہ ضامن ہے۔

66۔ یہ عہد و میثاق ان باتوں کے بارے میں ہے جو انسان کے دائرﮤ اختیار میں ہیں جیسا کہ ان لوگوں نے جان بوجھ کر یوسف علیہ السلام کے ساتھ کیا تھا۔ اگر با امر مجبوری اس کی خلاف ورزی ہو گئی تو قابل درگزر ہو گا کیونکہ اس زمانے میں کنعان سے مصر کا سفر کرنا خطرے سے خالی نہ تھا اور سفر بھی دراز تھا۔ عہد و پیمان ملنے کے بعد حضرت یعقوب علیہ السلام نے اللہ پر توکل کا اظہار کیا۔ کیونکہ توکل کا مطلب اسباب و علل سے بے نیازی نہیں ہے بلکہ توکل کا مطلب یہ ہے کہ صرف اسباب و علل کافی نہیں ہیں بلکہ ان کے ماوراء ارادﮤ الہی درکار ہوتا ہے۔ وہی قابل بھروسہ ہے۔