وَ لَمَّا فَتَحُوۡا مَتَاعَہُمۡ وَجَدُوۡا بِضَاعَتَہُمۡ رُدَّتۡ اِلَیۡہِمۡ ؕ قَالُوۡا یٰۤاَبَانَا مَا نَبۡغِیۡ ؕ ہٰذِہٖ بِضَاعَتُنَا رُدَّتۡ اِلَیۡنَا ۚ وَ نَمِیۡرُ اَہۡلَنَا وَ نَحۡفَظُ اَخَانَا وَ نَزۡدَادُ کَیۡلَ بَعِیۡرٍ ؕ ذٰلِکَ کَیۡلٌ یَّسِیۡرٌ﴿۶۵﴾

۶۵۔اور جب انہوں نے اپنا سامان کھولا تو دیکھا ان کی پونجی انہیں واپس کر دی گئی کہنے لگے:اے ہمارے ابا! ہمیں اور کیا چاہیے؟دیکھیے! ہماری یہ پونجی ہمیں واپس کر دی گئی ہے اور ہم اپنے اہل و عیال کے لیے غلہ لائیں گے اور اپنے بھائی کی حفاظت بھی کریں گے اور ایک اونٹ کا بوجھ غلہ زیادہ لائیں گے اور وہ غلہ آسانی سے (حاصل) ہو جائے گا۔

65۔ جب دیکھا کہ یوسف علیہ السلام نے غلہ کی قیمت بھی واپس کی ہے تو یہ بات مزید باعث اطمینان ہو گئی کہ ایسے مہربان شخص کے پاس بنیامین کو لے کر جانے میں کوئی باک نہیں ہے۔ اس سے اولاد یعقوب کے مؤقف میں تقویت آ گئی اور انہوں نے اپنے مؤقف کی حمایت میں مزید چند تاکیدی باتوں کا اضافہ کیا۔ اول یہ کہ بنیامین کے بھیجنے سے اہل و عیال کے لیے غلہ مل جائے گا۔ دوم یہ کہ ایسے شخص کے پاس جانے میں ہمیں تحفظ ہے۔ سوم یہ کہ بنیامین کے جانے سے ایک بار شتر کا اضافہ ہو جائے گا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام غلہ کی تقسیم ایک شتر کے حساب سے کرتے تھے اور راشننگ کا نظام نافذ تھا۔ چہارم یہ کہ بنیامین کے جانے سے اعتماد بحال ہو گا اور ان سب چیزوں کا حصول آسان ہو جائے گا۔