اِنَّمَا مَثَلُ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا کَمَآءٍ اَنۡزَلۡنٰہُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخۡتَلَطَ بِہٖ نَبَاتُ الۡاَرۡضِ مِمَّا یَاۡکُلُ النَّاسُ وَ الۡاَنۡعَامُ ؕ حَتّٰۤی اِذَاۤ اَخَذَتِ الۡاَرۡضُ زُخۡرُفَہَا وَ ازَّیَّنَتۡ وَ ظَنَّ اَہۡلُہَاۤ اَنَّہُمۡ قٰدِرُوۡنَ عَلَیۡہَاۤ ۙ اَتٰہَاۤ اَمۡرُنَا لَیۡلًا اَوۡ نَہَارًا فَجَعَلۡنٰہَا حَصِیۡدًا کَاَنۡ لَّمۡ تَغۡنَ بِالۡاَمۡسِ ؕ کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ﴿۲۴﴾

۲۴۔ دنیاوی زندگی کی مثال یقینا اس پانی کی سی ہے جسے ہم نے آسمان سے برسایا جس سے زمین کی نباتات گھنی ہو گئیں جن میں سے انسان اور جانور سب کھاتے ہیں پھر جب زمین سبزے سے خوشنما اور آراستہ ہو گئی اور زمین کے مالک یہ خیال کرنے لگے کہ اب وہ اس پر قابو پا چکے ہیں تو (ناگہاں) رات کے وقت یا دن کے وقت اس پر ہمارا حکم آ پڑا تو ہم نے اسے کاٹ کر ایسا صاف کر ڈالا کہ گویا کل وہاں کچھ بھی موجود نہ تھا، غور و فکر سے کام لینے والوں کے لیے ہم اپنی نشانیاں اس طرح کھول کر بیان کرتے ہیں۔

24۔ یہ دنیا کی زیب و زینت، یہاں کے کیف و سرور کی بے ثباتی کی ایک مثال ہے کہ انسان خواہ اس محدود زندگی کو کتنا ہی آراستہ و خوشنما بنائے، بالآخر ایک مختصر مدت کے بعد اس زندگی کو ساتھ چھوڑنا ہے، وہ بھی عین اس عالم میں کہ انسان یہاں کی رعنائیوں سے خوب لطف اندوز ہو رہا ہے، یہاں کی نعمتوں میں نازاں ہے اور دیر تک زندہ رہنے کے آرزو میں مگن ہے۔ عین اس عالم میں اللہ کا حکم آ پڑتا ہے اور روئے زمین سے اس کا وجود ایسا ناپید کر دیا جاتا ہے کہ گویا وہ کل یہاں تھا ہی نہیں۔

کیا انسان ایسی نا پائیدار زندگی کے لیے آخرت کی ابدی زندگی کو تباہ کرتا ہے؟ یہ غور و فکر کا مقام ہے، اسی لیے آیت کا مخاطب صاحبان غور و فکر ہیں۔