آیت 22
 

ہُوَ الَّذِیۡ یُسَیِّرُکُمۡ فِی الۡبَرِّ وَ الۡبَحۡرِ ؕ حَتّٰۤی اِذَا کُنۡتُمۡ فِی الۡفُلۡکِ ۚ وَ جَرَیۡنَ بِہِمۡ بِرِیۡحٍ طَیِّبَۃٍ وَّ فَرِحُوۡا بِہَا جَآءَتۡہَا رِیۡحٌ عَاصِفٌ وَّ جَآءَہُمُ الۡمَوۡجُ مِنۡ کُلِّ مَکَانٍ وَّ ظَنُّوۡۤا اَنَّہُمۡ اُحِیۡطَ بِہِمۡ ۙ دَعَوُا اللّٰہَ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ ۬ۚ لَئِنۡ اَنۡجَیۡتَنَا مِنۡ ہٰذِہٖ لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الشّٰکِرِیۡنَ﴿۲۲﴾

۲۲۔ وہی تو ہے جو تمہیں خشکی اور سمندر میں چلاتا ہے، چنانچہ جب تم کشتیوں میں سوار ہوتے ہو اور وہ لوگوں کو لے کر باد موافق کی مدد سے چلتی ہیں اور وہ اس سے خوش ہوتے ہیں اتنے میں کشتی کو مخالف تیز ہوا کا تھپیڑا لگتا ہے اور ہر طرف سے موجیں ان کی طرف آنے لگتی ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ (طوفان میں) گھر گئے ہیں تو اس وقت وہ اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اس سے دعا کرتے ہیں کہ اگر تو نے ہمیں اس مصیبت سے بچایا تو ہم ضرور بالضرور شکر گزاروں میں سے ہوں گے۔

تفسیر آیات

یہ ان دلائل میں سے ہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کی وحدانیت اور اس کا تصور ہر انسان کے نفس اور اس کی فطرت میں ودیعت ہے لیکن جب بیرونی رکاوٹیں اس فطرت سلیمہ کے تقاضوں کے خلاف ہوتی ہیں پھر انسان فطری راہوں سے منحرف ہو جاتا ہے۔ مثلاً علم دوستی بھی انسانی فطرت میں ودیعت ہے لیکن منفی تربیت، رکاوٹوں کی وجہ سے فطری تقاضے جامہ عمل نہیں پہن سکتے۔ جب بیرونی رکاوٹیں دور ہو جاتی ہیں ، جن ظاہری اسباب کے دھوکے میں یہ گم تھا، وہ سب ٹوٹ جاتے ہیں ، اس وقت فطرت سلیمہ کو اپنا تقاضا پورا کرنے کا موقع ملتا ہے اور بے ساختہ اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ اس جگہ اس انسان کو کسی نبی، عالم یا ناصح نے نہیں ، صرف اس کی فطرت سلیمہ نے اس کو اللہ یا دلایا تو یہ مان گیا۔ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ پھر اسی کو پکارا۔

اہم نکات

۱۔ اضطراری حالت کا ایمان آخرت کے لیے باعث نجات نہیں بن سکتا۔ ممکن ہے اسی اضطرار سے بچنے کا باعث بن جائے۔

۲۔ مشروط ایمان کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی: لَئِنۡ اَنۡجَیۡتَنَا۔۔۔


آیت 22