آیت 26
 

لِلَّذِیۡنَ اَحۡسَنُوا الۡحُسۡنٰی وَ زِیَادَۃٌ ؕ وَ لَا یَرۡہَقُ وُجُوۡہَہُمۡ قَتَرٌ وَّ لَا ذِلَّۃٌ ؕ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ الۡجَنَّۃِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ﴿۲۶﴾

۲۶۔ جنہوں نے نیکی کی ہے ان کے لیے نیکی ہے اور مزید بھی، ان کے چہروں پر نہ سیاہ دھبہ ہو گا اور نہ ذلت (کے آثار)، یہ جنت والے ہیں جو اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

تشریح کلمات

رہق:

( ر ھ ق ) کسی معاملہ نے اسے بزور جبر دبا لیا۔

قَتَرٌ:

( ق ت ر ) اصل میں قتار وقَتَر کے معنی اس دھوئیں کے ہیں جو کسی چیز کے بھوننے یا لکڑی کے جلنے سے اٹھتا ہے اور یہ سیاہی کی طرف اشارہ ہے۔

تفسیر آیات

اللہ تعالیٰ نے ہر نیکی کا اجر و ثواب دینا، نیکی کرنے والے کے لیے حق قرار دیا ہے۔ یہ خود اپنی جگہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فضل و کرم ہے کہ وہ ایک حقیر عمل کے لیے ثواب عنایت فرماتا ہے اور اس کے باوجود اللہ اسے کئی گنا کر دیتا ہے۔

۱۔ لِلَّذِیۡنَ اَحۡسَنُوا الۡحُسۡنٰی: الحسنی، حسنۃ سے صیغۂ مبالغہ ہے۔ یعنی جنہوں نے نیکی کی ہے

ان کے لیے صرف حسنۃ نہیں ہے، حُسنیٰ ہے، بہترحسنۃ ہے۔ اس بہتری کا ذکر اس آیت میں آیا ہے:

مَنۡ جَآءَ بِالۡحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشۡرُ اَمۡثَالِہَا ۔۔۔۔ (۶ انعام:۱۶۰)

جو (اللہ کے پاس) ایک نیکی لے کر آئے گا اسے دس گنا (اجر) ملے گا۔۔۔۔

یہ عام حالات میں ہے۔ اگر یہ نیکی مالی انفاق سے مربوط ہے تو سورہ بقرہ آیت ۲۶۱ کے تحت ایک کا سات سو ہے اور وَ اللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنۡ یَّشَآءُ اگر اللہ کی مشیت میں آگیا تو اس سات سو کو دوگنا یا کئی گنا کر دے گا، یہ ہوا کم سے کم چودہ سو۔ لہٰذا چودہ سو تک کی حسنیٰ (بہتر حسنۃ) میں گنجائش ہے۔

۲۔ وَ زِیَادَۃٌ : حسنیٰ سے زیادہ۔ یعنی دس گنا یا بعض حالات میں سات سو گنا اور کبھی چودہ سو گنا سے بھی زیادہ۔ دوسری جگہ فرمایا:

لَہُمۡ مَّا یَشَآءُوۡنَ فِیۡہَا وَلَدَیۡنَا مَزِیۡدٌ﴿﴾ (۵۰ ق:۳۵)

وہاں ان کے لیے جو وہ چاہیں گے حاضر ہے اور ہمارے پاس مزید بھی ہے۔

اس جنت میں وہ سب کچھ ہے جو وہ چاہتے ہیں اور ہمارے پاس مزید بھی ہے۔ انسانی خواہشات سے بھی زیادہ۔ تیسری جگہ فرمایا:

فَاَمَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَیُوَفِّیۡہِمۡ اُجُوۡرَہُمۡ وَ یَزِیۡدُہُمۡ مِّنۡ فَضۡلِہٖ ۔۔۔۔ (۴ النساء:۱۷۳)

پھر ایمان لانے والوں اور نیک اعمال بجا لانے والوں کو اللہ ان کا پورا اجر دے گا اور انہیں اپنے فضل سے مزید عطا کرے گا۔۔۔۔

نیز فرمایا:

لِیَجۡزِیَہُمُ اللّٰہُ اَحۡسَنَ مَا عَمِلُوۡا وَ یَزِیۡدَہُمۡ مِّنۡ فَضۡلِہٖ ۔۔۔۔ ( ۲۴ النور: ۳۸)

تاکہ اللہ انہیں ان کے بہترین اعمال کی جزا دے اور اپنے فضل سے انہیں مزید بھی عطا کرے۔۔۔

سورہ فاطر آیت ۳۰ میں فرمایا:

لِیُوَفِّیَہُمۡ اُجُوۡرَہُمۡ وَ یَزِیۡدَہُمۡ مِّنۡ فَضۡلِہٖ ۔۔۔۔

تاکہ اللہ ان کا پورا اجر انہیں دے بلکہ اپنے فضل سے مزید بھی عطا فرمائے۔۔۔۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

مَا مِنْ شَیْئٍ اِلَّا وَ لَہٗ کَیْلٌ وَ وَزَن اِلَّا الدُّمُوعُ فَاِنَّ الْقَطْرَۃَ تُطْفِیئُ بِحَاراً مِنْ نَارٍ فَاِذَا اغْرَوْرَقَتِ الْعَیْنُ بِمَائِھَا لَمْ یَرْھَقْ وَجْھًا قَتَرٌ وَ لَا ذِلَّۃٌ فَاِذَا فَاضَتْ حَرَّمَہُ اللّٰہُ عَلَی النَّارِ وَ لَو اَنَّ بَاکِیاً بَکَی فِی اُمَّۃٍ لَرُحِمُوا ۔ (الکافی ۲: ۴۸۱)

ہر چیز کا وزن ہوتا ہے سوائے آنسو کے چونکہ آنسو کا ایک قطرہ آتش کے ایک سمندر کو بجھا دیتا ہے۔ اگر آنکھ پرنم ہو جائے تو کوئی چہرہ سیاہ ہو گا، نہ ذلیل، اگر آنسو بہ گئے تو اس پر آتش حرام ہو جائے گی، اگر ایک قوم میں ایک شخص گریہ کرتا ہے تو سب پر رحم کیا جائے گا۔

اہم نکات

۱۔ جنت کی نعمتیں دنیاوی فہم و ادراک سے بالاتر ہیں۔ وَ زِیَادَۃٌ ۔۔۔۔

۲۔ انسانی خواہشات جنت کی نعمتوں کے مقابلے میں بہت محدود ہیں۔


آیت 26