وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتُ بَعۡضُہُمۡ اَوۡلِیَآءُ بَعۡضٍ ۘ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤۡتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَ یُطِیۡعُوۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ ؕ اُولٰٓئِکَ سَیَرۡحَمُہُمُ اللّٰہُ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ﴿۷۱﴾

۷۱۔ اور مومن مرد اور مومنہ عورتیں ایک دوسرے کے بہی خواہ ہیں، وہ نیک کاموں کی ترغیب دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ رحم فرمائے گا، بے شک اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے ۔

7۔ ایک مؤقف ایک مزاج اور ایک ہی قسم کی سوچ نے جس طرح منافقین کو ایک جتھا بنا دیا تھا اسی طرح ایک عقیدہ ایک نظریہ اور ایک ہی قسم کے ایمان نے مومنوں کو ایک امت بنا دیا۔ یوں تمام مومن مرد اور عورتیں جسد واحد کی طرح ہو گئے کہ کسی کی نیکی کو دیکھ لیا تو خود بھی اس پر عمل کیا اور ساتھ یہ خواہش بھی دل میں جانگزیں ہو گئی کہ اس کا ہم عقیدہ برادر ایمانی بھی اس پر عمل کرے۔ اسی طرح برائی سے خود بھی دور رہا اور اپنے مومن بھائی کو بھی دور رکھنے کی کوشش کی۔ اس طرح مومن آپس میں ولاء اور ولایت کا حق ادا کرتے ہیں۔

وَعَدَ اللّٰہُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا وَ مَسٰکِنَ طَیِّبَۃً فِیۡ جَنّٰتِ عَدۡنٍ ؕ وَ رِضۡوَانٌ مِّنَ اللّٰہِ اَکۡبَرُ ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ﴿٪۷۲﴾

۷۲۔ اللہ نے ان مومن مردوں اور مومنہ عورتوں سے ایسی بہشتوں کا وعدہ کر رکھا ہے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور ان دائمی جنتوں میں پاکیزہ قیام گاہیں ہیں اور اللہ کی طرف سے خوشنودی تو ان سب سے بڑھ کر ہے، یہی تو بڑی کامیابی ہے۔

72۔ اس آیت میں دو جنتوں کا ذکرہے: ایک وہ جس کے نیچے نہریں بہتی ہیں، دوسری جنت عدن۔ جنت عدن کے بارے میں روایت ہے کہ جنت کا اعلیٰ ترین درجہ ہے، جس میں انبیاء، شہداء اور آئمہ ہوں علیہ السلام گے، وَ رِضۡوَانٌ مِّنَ اللّٰہِ اَکۡبَرُ تمام تر نعمتیں اللہ کی خوشنودی کے ساتھ مربوط ہیں۔ ممکن ہے کہ اکبر سے مراد اکبر من کل شی ہو یعنی جنت کی تمام نعمتیں خواہ کتنی ہی عظیم کیوں نہ ہوں، رضائے رب کے مقابلے میں کچھ نہیں اور ممکن ہے اکبر من ان یوصف ہو یعنی اللہ کی خوشنودی کی عظمت بیان کی حد سے بڑھ کر ہے۔ بندہ مومن جب جنت میں رب رحیم کے جوار میں اس کی خوشنودی کی پرسکون اور کیف و سرور کی فضا میں قدم رکھے گا تو اس کے لیے ایک ایک لمحہ بھی و صف بیان سے بڑھ کر ہو گا۔

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ جَاہِدِ الۡکُفَّارَ وَ الۡمُنٰفِقِیۡنَ وَ اغۡلُظۡ عَلَیۡہِمۡ ؕ وَ مَاۡوٰىہُمۡ جَہَنَّمُ ؕ وَ بِئۡسَ الۡمَصِیۡرُ﴿۷۳﴾

۷۳۔ اے نبی ! کفار اور منافقین سے لڑو اور ان پر سختی کرو اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے جو بہت برا ٹھکانا ہے۔

یَحۡلِفُوۡنَ بِاللّٰہِ مَا قَالُوۡا ؕ وَ لَقَدۡ قَالُوۡا کَلِمَۃَ الۡکُفۡرِ وَ کَفَرُوۡا بَعۡدَ اِسۡلَامِہِمۡ وَ ہَمُّوۡا بِمَا لَمۡ یَنَالُوۡا ۚ وَ مَا نَقَمُوۡۤا اِلَّاۤ اَنۡ اَغۡنٰہُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ مِنۡ فَضۡلِہٖ ۚ فَاِنۡ یَّتُوۡبُوۡا یَکُ خَیۡرًا لَّہُمۡ ۚ وَ اِنۡ یَّتَوَلَّوۡا یُعَذِّبۡہُمُ اللّٰہُ عَذَابًا اَلِیۡمًا ۙ فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ ۚ وَ مَا لَہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ مِنۡ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیۡرٍ﴿۷۴﴾

۷۴۔ یہ لوگ اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ انہوں نے کچھ نہیں کہا حالانکہ انہوں نے کفر کی بات کہدی ہے اور وہ اسلام لانے کے بعد کافر ہو گئے ہیں اور انہوں نے وہ کچھ کرنے کی ٹھان لی تھی جو وہ نہ کر پائے اور انہیں اس بات پر غصہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول نے اپنے فضل سے ان (مسلمانوں) کو دولت سے مالا مال کر دیا ہے، پس اگر یہ لوگ توبہ کر لیں تو ان کے حق میں بہتر ہو گا اور اگر وہ منہ پھیر لیں تو اللہ انہیں دنیا و آخرت میں دردناک عذاب دے گا اور روئے زمین پر ان کا نہ کوئی کارساز ہو گا اور نہ مددگار۔

74۔ تبوک سے واپسی پر بعض منافقین نے فیصلہ کیا کہ حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو گھاٹی میں گرا کر شہید کر دیں۔ اللہ نے حضو صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلمر کو بچایا اور ایک بجلی چمکی جس سے راستہ واضح ہو گیا۔ آنحضرت صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حذیفہ کو بتایا کہ وہ منافقین فلاں فلاں تھے۔ پھر فرمایا: انہیں راز میں رکھو۔

اَغۡنٰہُمُ : اللہ اور رسول نے اپنے فضل سے ان کو مالا مال کر دیا۔ اس جملے میں ان لوگوں کے لیے دعوت فکر ہے جو موحدین کو مشرک بنانے کے شوقین ہیں۔ جبکہ شرک اس وقت لازم آتا ہے جب مخلوق کو اللہ کے مقابلے میں لایا جائے، لیکن اگر انہیں اللہ کی مدد کے ذیل میں قرار دیں تو یہ شرک نہیں ہے۔ جیسا کہ قبض روح کو کبھی اللہ نے فرشتوں کی طرف، کبھی ملک الموت کی طرف اور کبھی اپنی ذات کی طرف نسبت دی ہے۔ اللہ کی ذات علۃ العلل ہے۔ اس کے ذیل میں واقع ہونے والی علت قریبہ کی طرف نسبت دینا شرک ہرگز نہیں۔

وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ عٰہَدَ اللّٰہَ لَئِنۡ اٰتٰىنَا مِنۡ فَضۡلِہٖ لَنَصَّدَّقَنَّ وَ لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ﴿۷۵﴾

۷۵۔اور ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کر رکھا تھا کہ اگر اللہ نے ہمیں اپنے فضل سے نوازا تو ہم ضرور خیرات کیا کریں گے اور ضرور نیک لوگوں میں سے ہو جائیں گے۔

75۔ 76 اس آیت کے شان نزول میں روایت ہے کہ انصار کا ایک شخص حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اصرار کر تا ہے کہ دولت کی فراوانی کے لیے دعا فرمائیں میں وعدہ کرتا ہوں اس صورت میں تمام مالی حقوق ادا کروں گا۔ چنانچہ تھوڑے عرصے میں وہ بڑا دولت مند ہو جاتا ہے۔ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نمآئندہ اس سے زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے گیا تو اس نے زکوٰۃ دینے سے نہ صرف انکار کر دیا بلکہ یہ طنز بھی کیا کہ یہ تو جزیہ کا بھائی ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

فَلَمَّاۤ اٰتٰہُمۡ مِّنۡ فَضۡلِہٖ بَخِلُوۡا بِہٖ وَ تَوَلَّوۡا وَّ ہُمۡ مُّعۡرِضُوۡنَ﴿۷۶﴾

۷۶۔لیکن جب اللہ نے انہیں اپنے فضل سے نوازا تو وہ اس میں بخل کرنے لگے اور (عہد سے) روگردانی کرتے ہوئے پھر گئے۔

فَاَعۡقَبَہُمۡ نِفَاقًا فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ اِلٰی یَوۡمِ یَلۡقَوۡنَہٗ بِمَاۤ اَخۡلَفُوا اللّٰہَ مَا وَعَدُوۡہُ وَ بِمَا کَانُوۡا یَکۡذِبُوۡنَ﴿۷۷﴾

۷۷۔پس اللہ نے ان کے دلوں میں اپنے حضور پیشی کے دن تک نفاق کو باقی رکھا کیونکہ انہوں نے اللہ کے ساتھ بدعہدی کی اور وہ جھوٹ بولتے رہے۔

77۔ اللہ کے ساتھ بدعہدی اور بخل کا طبیعی نتیجہ یہ ہوا کہ قیامت تک کے لیے ان کے دلوں میں نفاق جاگزین ہو گیا۔ یعنی جب ان لوگوں سے مذکورہ بالا نافرمانیاں سرزد ہوئیں تو اس سے وہ اللہ کی طرف سے ہدایت و توفیق کے قابل نہ رہے۔ جب توفیق و ہدایت سلب ہو جاتی ہے تو اس کی جگہ نفاق اور کفر پر کرتا ہے۔

اَلَمۡ یَعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ یَعۡلَمُ سِرَّہُمۡ وَ نَجۡوٰىہُمۡ وَ اَنَّ اللّٰہَ عَلَّامُ الۡغُیُوۡبِ ﴿ۚ۷۸﴾

۷۸۔ کیا انہیں معلوم نہیں کہ اللہ ان کے پوشیدہ رازوں اور سرگوشیوں سے بھی واقف ہے اور یہ کہ اللہ غیب کی باتوں سے بھی خوب آگاہ ہے؟

78۔ منافقین کی اندرونی حالت پر شدید لہجہ میں تنبیہ ہو رہی ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے بارے میں سینوں میں کس قدر عناد رکھتے ہیں اور آپس کی سرگوشیوں میں اس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔

اَلَّذِیۡنَ یَلۡمِزُوۡنَ الۡمُطَّوِّعِیۡنَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ فِی الصَّدَقٰتِ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَجِدُوۡنَ اِلَّا جُہۡدَہُمۡ فَیَسۡخَرُوۡنَ مِنۡہُمۡ ؕ سَخِرَ اللّٰہُ مِنۡہُمۡ ۫ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ﴿۷۹﴾

۷۹۔ جو لوگ ان مومنوں کا مذاق اڑاتے ہیں جو برضا و رغبت خیرات کرتے ہیں اور جنہیں اپنی محنت و مشقت کے سوا کچھ بھی میسر نہیں ان پر ہنستے بھی ہیں، اللہ ان کا مذاق اڑاتا ہے اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔

79۔غزوہ تبوک کی تیاری کے موقع پر مسلمانوں سے مالی اعانت جمع کرنے کی مہم شروع ہوئی۔ منافقین زیادہ رقم دینے والوں پر ریاکاری کا الزام لگاتے تھے اور کوئی نادار مسلمان اپنی محنت مزدوری سے کچھ کھجوریں دیتا تو منافقین اس کا مذاق اڑاتے تھے۔ مگر اللہ کو ان کا تھوڑا انفاق پسند تھا اس لیے اللہ نے ان منافقین کا مذاق اڑایا۔

رسول اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال ہوا کہ کون سی خیرات بہتر ہے؟ فرمایا: نادار کی محنت و مشقت۔

اِسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ اَوۡ لَا تَسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ ؕ اِنۡ تَسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ سَبۡعِیۡنَ مَرَّۃً فَلَنۡ یَّغۡفِرَ اللّٰہُ لَہُمۡ ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ کَفَرُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِیۡنَ﴿٪۸۰﴾

۸۰۔ (اے رسول) آپ ایسے لوگوں کے لیے مغفرت کی دعا کریں یا دعا نہ کریں (مساوی ہے) اگر ستر بار بھی آپ ان کے لیے مغفرت طلب کریں تو بھی اللہ انہیں ہرگز معاف نہیں کرے گا، یہ اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا ہے اور اللہ فاسقین کو ہدایت نہیں دیتا۔

80۔ یعنی جب یہ لوگ بدتر جرم جو کفر اور فسق سے عبارت ہے، کے ارتکاب میں مشغول ہیں، عین اس وقت ان کے لیے درگزر اور معاف کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اس بات کے ناممکن اور نامعقول ہونے کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے فرمایا: اے رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خواہ آپ بنفس نفیس ان کے لیے ستر بار بھی مغفرت کی دعا کریں پھر بھی یہ لوگ قابل عفو و درگزر نہیں ہیں کیونکہ ان کی طرف سے جرم ہنوز جاری ہے۔ ستر سے کثرت مراد ہے، حد بندی نہیں۔