فَرِحَ الۡمُخَلَّفُوۡنَ بِمَقۡعَدِہِمۡ خِلٰفَ رَسُوۡلِ اللّٰہِ وَ کَرِہُوۡۤا اَنۡ یُّجَاہِدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ قَالُوۡا لَا تَنۡفِرُوۡا فِی الۡحَرِّ ؕ قُلۡ نَارُ جَہَنَّمَ اَشَدُّ حَرًّا ؕ لَوۡ کَانُوۡا یَفۡقَہُوۡنَ﴿۸۱﴾

۸۱۔ (غزوۂ تبوک میں) پیچھے رہ جانے والے رسول اللہ کا ساتھ دیے بغیر بیٹھے رہنے پر خوش ہیں انہوں نے اپنے اموال اور اپنی جانوں کے ساتھ راہ خدا میں جہاد کرنے کو ناپسند کیا اور کہنے لگے: اس گرمی میں مت نکلو،کہدیجئے: جہنم کی آتش کہیں زیادہ گرم ہے، کاش وہ سمجھ پاتے۔

8۔ ایمان کی فراست سے محروم لوگ اپنے فیصلوں کے وقتی نتائج پر خوش اور ابدی فضیحت اور دائمی رسوائی سے بے خبر ہوتے ہیں۔ دھوپ کی تپش سے بھاگتے ہوئے آتش جہنم کی تپش میں جا گرتے ہیں۔

فَلۡیَضۡحَکُوۡا قَلِیۡلًا وَّ لۡیَبۡکُوۡا کَثِیۡرًا ۚ جَزَآءًۢ بِمَا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ﴿۸۲﴾

۸۲۔ پس انہیں چاہیے کہ کم ہنسا کریں اور زیادہ رویا کریں، یہ ان کے اعمال کا بدلہ ہے جو وہ کرتے رہے ہیں۔

82۔ کم ہنسنے اور زیادہ رونے کا حکم تمام انسانوں کے لیے ایک کلی حکم نہیں ہے بلکہ اس آیت میں یہ حکم ان افراد کے ساتھ مخصوص ہے جو ایثار و قربانی کے مواقع پر مختلف حیلے بہانے کر کے پیچھے رہتے ہیں اور جان و مال سے اللہ کی راہ میں جد و جہد نہیں کرتے۔ جیسا کہ رسول اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دور کے منافقین ایسا کیا کرتے تھے۔

فَاِنۡ رَّجَعَکَ اللّٰہُ اِلٰی طَآئِفَۃٍ مِّنۡہُمۡ فَاسۡتَاۡذَنُوۡکَ لِلۡخُرُوۡجِ فَقُلۡ لَّنۡ تَخۡرُجُوۡا مَعِیَ اَبَدًا وَّ لَنۡ تُقَاتِلُوۡا مَعِیَ عَدُوًّا ؕ اِنَّکُمۡ رَضِیۡتُمۡ بِالۡقُعُوۡدِ اَوَّلَ مَرَّۃٍ فَاقۡعُدُوۡا مَعَ الۡخٰلِفِیۡنَ﴿۸۳﴾

۸۳۔ پھر اگر اللہ آپ کو ان میں سے کسی گروہ کے پاس واپس لے جائے اور وہ آپ سے (ساتھ) نکلنے کی اجازت مانگیں تو آپ کہدیں: (اب) تم میرے ساتھ ہرگز نہیں نکلو گے اور نہ ہی میرے ساتھ کسی دشمن سے لڑائی کرو گے، پہلی مرتبہ تم نے بیٹھے رہنے کو پسند کیا لہٰذا اب پیچھے رہنے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو۔

83۔ جو لوگ ضرورت کے وقت پیچھے ہٹتے ہیں اور آسودگی کے وقت بڑھ چڑھ کر آگے آنے اور لوگوں کو دھوکہ دینے کی کو شش کرتے ہیں، اس آیت میں حکم ہوا کہ ایسے لوگوں کو کوئی ایسا موقع نہ دیں کہ وہ اپنے نفاق پر پردہ ڈال سکیں۔ ایسے لوگوں کو کسی عام سفر میں بھی اپنی صحبت میں نہ رکھیں، نہ کسی جہاد میں شرکت کرنے کی اجازت دیں۔

وَ لَا تُصَلِّ عَلٰۤی اَحَدٍ مِّنۡہُمۡ مَّاتَ اَبَدًا وَّ لَا تَقُمۡ عَلٰی قَبۡرِہٖ ؕ اِنَّہُمۡ کَفَرُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ مَا تُوۡا وَ ہُمۡ فٰسِقُوۡنَ﴿۸۴﴾

۸۴۔ اور ان میں سے جو کوئی مر جائے اس پر آپ کبھی بھی نماز نہ پڑھیں اور نہ ہی اس کی قبر پر کھڑے ہوں، انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا ہے اور وہ نافرمانی کی حالت میں مرے ہیں۔

84۔ نماز جنازہ پڑھنا اور میت کی قبر پر بغرض دعا و زیارت کھڑا ہونا میت کے لیے عزت و تکریم ہے۔ منافق جو مسلمانوں کی صف میں داخل نہیں ہے، اس عزت و تکریم کا مستحق نہیں ہے۔

وَ لَا تُعۡجِبۡکَ اَمۡوَالُہُمۡ وَ اَوۡلَادُہُمۡ ؕ اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ اَنۡ یُّعَذِّبَہُمۡ بِہَا فِی الدُّنۡیَا وَ تَزۡہَقَ اَنۡفُسُہُمۡ وَ ہُمۡ کٰفِرُوۡنَ﴿۸۵﴾

۸۵۔ اور ان کی دولت اور اولاد کہیں آپ کو فریفتہ نہ کریں، اللہ تو بس ان چیزوں کے ذریعے انہیں دنیا میں عذاب دینا چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ ان کی جان کنی کفر کی حالت میں ہو۔

85۔ غیر مومن لوگوں کے مال و دولت اور افرادی قوت کی فراوانی پر فریفتہ نہ ہونے کا حکم ہے کیونکہ اگر غیر مومن کے پاس مال و اولاد کی فراوانی ہے تو اس کے دو برے نتائج ہیں: الف۔ بظاہر خوشحال نظر آنے کے باوجود وہ ہمیشہ اضطراب اور پریشانی کے عذاب میں مبتلا رہتے ہیں۔ ب: انہی چیزوں کی محبت اس سے حق و باطل کو سمجھنے کی صلاحیت چھین لیتی ہے اور وہ ناقابل ہدایت ہو کر کفر کی موت مرتا ہے۔

وَ اِذَاۤ اُنۡزِلَتۡ سُوۡرَۃٌ اَنۡ اٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ جَاہِدُوۡا مَعَ رَسُوۡلِہِ اسۡتَاۡذَنَکَ اُولُوا الطَّوۡلِ مِنۡہُمۡ وَ قَالُوۡا ذَرۡنَا نَکُنۡ مَّعَ الۡقٰعِدِیۡنَ﴿۸۶﴾

۸۶۔ اور جب کوئی ایسی سورت نازل ہوتی ہے (جس میں کہا جاتا ہے) کہ تم اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول کی معیت میں جہاد کرو تو ان (منافقین) میں سے دولتمند افراد آپ سے اجازت طلب کرتے ہیں اور کہتے ہیں: ہمیں چھوڑ جائیں کہ ہم بیٹھنے والوں کے ساتھ (بیٹھے) رہیں۔

86۔ ان صاحبان ثروت منافقین کا ذکر ہے جو رسول کے ساتھ جہاد سے کتراتے تھے۔ سورہ سے مراد یہاں خبر جزء سورہ ہے، جیسا کہ قرآن کا اطلاق جز اور کل دونوں پر ہوتا ہے۔

رَضُوۡا بِاَنۡ یَّکُوۡنُوۡا مَعَ الۡخَوَالِفِ وَ طُبِعَ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ فَہُمۡ لَا یَفۡقَہُوۡنَ﴿۸۷﴾

۸۷۔ انہوں نے گھر بیٹھنے والی عورتوں میں شامل رہنا پسند کیا اور ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی پس وہ کچھ سمجھتے ہی نہیں ۔

87۔ خوش حال طبقہ ہمیشہ مراعات طلب ہوتا ہے۔ تن پروری کی وجہ سے ان میں مردانگی و حمیت بھی نہیں ہوتی۔ اس لیے قرآنی تعبیر میں ان کو گھر بیٹھنے والی عورتوں میں شامل کیا گیا، جو ایک تحقیر آمیز طنز ہے۔ تن پروری نفاق کا سبب بنتی ہے اور نفاق سے انسان کے دل پر مہر لگ جاتی ہے یوں وہ دینی تعلیمات اور کائنات کے اصل و حقیقی معارف کو سمجھنے سے قاصر رہتا ہے۔

لٰکِنِ الرَّسُوۡلُ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَہٗ جٰہَدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ ؕ وَ اُولٰٓئِکَ لَہُمُ الۡخَیۡرٰتُ ۫ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ﴿۸۸﴾

۸۸۔ جب کہ رسول اور ان کے ساتھ ایمان لانے والوں نے اپنے اموال اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کیا اور (اب) ساری خوبیاں انہی کے لیے ہیں اور وہی کامیابی حاصل کرنے والے ہیں۔

88۔ سابقہ کردار کے مقابلے میں دوسرا کردار، کفر و نفاق کے سیاہ صفحات کے مقابلے میں ایمان و جہاد کے تابندہ صفحات، ذلت و رسوائی کے کردار کے مقابلے میں عزت و وقار کا کردار، دو قدروں کا مقابلہ، ہر ایک قدر کے اہل افراد کا ذکر ہے کہ عورتوں کی طرح گھروں میں بیٹھنے والوں کو عار و ننگ ملا ہے تو راہ خدا میں جہاد کرنے والے ساری خوبیوں کے مالک ہو گئے: اُولٰٓئِکَ لَہُمُ الۡخَیۡرٰتُ ۔

اَعَدَّ اللّٰہُ لَہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ﴿٪۸۹﴾

۸۹۔ان کے لیے اللہ نے ایسی جنتیں تیار کی ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہی عظیم کامیابی ہے ۔

وَ جَآءَ الۡمُعَذِّرُوۡنَ مِنَ الۡاَعۡرَابِ لِیُؤۡذَنَ لَہُمۡ وَ قَعَدَ الَّذِیۡنَ کَذَبُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ ؕ سَیُصِیۡبُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ﴿۹۰﴾

۹۰۔اور کچھ عذر تراشنے والے صحرا نشین بھی (آپ کے پاس)آئے کہ انہیں بھی (پیچھے رہ جانے کی) اجازت دی جائے اور جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جھوٹ بولا وہ (گھروں میں) بیٹھے رہے، ان میں سے جو کافر ہو گئے ہیں انہیں عنقریب دردناک عذاب پہنچے گا۔

90۔ اسلام کی بقا و سربلندی سے مربوط اجتماعی امور میں شرکت ضروری ہے۔ ان میں شریک نہ ہونے کے لیے عذر تراشی اور بہانہ جوئی رسول کو جھٹلانے کے مترادف اور کفر و عذاب الیم کی موجب ہے۔ البتہ اگر کسی کے پاس معقول عذر ہو تو اسے چاہیے کہ اسلامی قیادت کے سامنے اس عذر کو پیش کرے۔