نظریہ قومیت کی اساس


وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتُ بَعۡضُہُمۡ اَوۡلِیَآءُ بَعۡضٍ ۘ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤۡتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَ یُطِیۡعُوۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ ؕ اُولٰٓئِکَ سَیَرۡحَمُہُمُ اللّٰہُ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ﴿۷۱﴾

۷۱۔ اور مومن مرد اور مومنہ عورتیں ایک دوسرے کے بہی خواہ ہیں، وہ نیک کاموں کی ترغیب دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ رحم فرمائے گا، بے شک اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے ۔

7۔ ایک مؤقف ایک مزاج اور ایک ہی قسم کی سوچ نے جس طرح منافقین کو ایک جتھا بنا دیا تھا اسی طرح ایک عقیدہ ایک نظریہ اور ایک ہی قسم کے ایمان نے مومنوں کو ایک امت بنا دیا۔ یوں تمام مومن مرد اور عورتیں جسد واحد کی طرح ہو گئے کہ کسی کی نیکی کو دیکھ لیا تو خود بھی اس پر عمل کیا اور ساتھ یہ خواہش بھی دل میں جانگزیں ہو گئی کہ اس کا ہم عقیدہ برادر ایمانی بھی اس پر عمل کرے۔ اسی طرح برائی سے خود بھی دور رہا اور اپنے مومن بھائی کو بھی دور رکھنے کی کوشش کی۔ اس طرح مومن آپس میں ولاء اور ولایت کا حق ادا کرتے ہیں۔