آیت 73
 

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ جَاہِدِ الۡکُفَّارَ وَ الۡمُنٰفِقِیۡنَ وَ اغۡلُظۡ عَلَیۡہِمۡ ؕ وَ مَاۡوٰىہُمۡ جَہَنَّمُ ؕ وَ بِئۡسَ الۡمَصِیۡرُ﴿۷۳﴾

۷۳۔ اے نبی ! کفار اور منافقین سے لڑو اور ان پر سختی کرو اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے جو بہت برا ٹھکانا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ جَاہِدِ الۡکُفَّارَ: پورے ۹ سال کا عرصہ مہلت دینے اور تمام عرب کو دائرہ اسلام میں داخل کرنے کے بعد ان مار آستین کو مزید مہلت دینے کا مطلب یہ تھا کہ ان منافقین کو اپنے نفاق کا زہر پھیلانے کا موقع فراہم ہوتا رہے اور اس موقع سے فائدہ اٹھا کر کہیں یہ لوگ مسلمانوں کو اندرونی خطرات سے دو چار نہ کریں لہٰذا اب وقت آگیا تھا کہ ان کی منافقت سے چشم پوشی کا سلسلہ ختم کیا جائے اور ان کو اسلامی سوسائٹی کا حصہ سمجھنے کی جگہ کافروں کی صف میں کھڑا کیا جائے۔ منافقوں کے خلاف جہاد کا مطلب قتال نہیں بلکہ ان کو بے نقاب کر کے مسلمانوں کی صفوں سے نکال کر کافروں کی صفوں میں داخل کرنے کے لیے پیہم کوشش ہے۔

۲۔ وَ اغۡلُظۡ عَلَیۡہِمۡ: غلظت اور شدت کے ساتھ پیش آیا کرو۔ منافقین اب آپ کے خلق عظیم کے اہل رہے اور نہ وہ مصلحت باقی رہی جس کے تحت ان کے جرائم سے چشم پوشی اختیار کی جاتی رہی۔

اہم نکات

۱۔ منافق کو اگر معاشرے میں عزت ملے تو دوسروں کو غداری و منافقت کی جرأت مل جاتی ہے: جَاہِدِ الۡکُفَّارَ وَ الۡمُنٰفِقِیۡنَ ۔۔۔۔

۲۔ دشمنان اسلام سے رواداری، اسلامی حمیت و غیرت کی نفی ہے: وَ اغۡلُظۡ عَلَیۡہِمۡ ۔۔۔۔


آیت 73