قُلۡ سِیۡرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ ثُمَّ انۡظُرُوۡا کَیۡفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الۡمُکَذِّبِیۡنَ﴿۱۱﴾

۱۱۔ (ان سے) کہدیجئے : زمین میں چلو پھرو پھر دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا ہے؟

11۔ مطالعۂ تاریخ کی غرض سے سیر فی الارض جدید طریقہ تحقیق ہے، جس کا عربوں کو علم ہی نہ تھا۔بڑی بڑی تہذیبوں اور سلطنتوں کے باقی ماندہ کھنڈرات سے ان کے انجام بد کی گواہی مل جاتی ہے۔

قُلۡ لِّمَنۡ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ قُلۡ لِّلّٰہِ ؕ کَتَبَ عَلٰی نَفۡسِہِ الرَّحۡمَۃَ ؕ لَیَجۡمَعَنَّکُمۡ اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ لَا رَیۡبَ فِیۡہِ ؕ اَلَّذِیۡنَ خَسِرُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ فَہُمۡ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ﴿۱۲﴾

۱۲۔ ان سے پوچھ لیجیے: آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ کس کا ہے؟ کہدیجئے: (سب کچھ) اللہ ہی کا ہے، اس نے رحمت کو اپنے پر لازم کر دیا ہے، وہ تم سب کو قیامت کے دن جس کے آنے میں کوئی شک نہیں ضرور بہ ضرور جمع کرے گا جنہوں نے اپنے آپ کو خسارے میں ڈال رکھا ہے وہ ایمان نہیں لائیں گے۔

12۔ کَتَبَ عَلٰی نَفۡسِہِ الرَّحۡمَۃَ : اللہ نے رحمت کو اپنے ذمے لیا ہے وہ ارحم الراحمین ہے اور انسان کی تخلیق میں بھی رحیم ہے۔ چنانچہ اس نے انسان کو احسن تقویم کے سانچے میں ڈھالا۔ وہ انسان کے لیے تسخیر کائنات میں رحیم ہے۔ وہ انسانی تعلیم و تربیت میں رحیم ہے۔ انسان کی ہدایت و رہنمائی میں رحیم ہے۔ عفو و درگزر میں رحیم ہے اور قیامت کی عدالت میں رحیم ہے۔ اس رحیم و کریم رب کو چھوڑ کر بتوں کے سامنے جھکتے ہو؟

وَ لَہٗ مَا سَکَنَ فِی الَّیۡلِ وَ النَّہَارِ ؕ وَ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ﴿۱۳﴾

۱۳۔ اور جو (مخلوق) رات اور دن میں بستی ہے وہ سب اللہ کی ہے اور وہ بڑا سننے والا، جاننے والا ہے۔

قُلۡ اَغَیۡرَ اللّٰہِ اَتَّخِذُ وَلِیًّا فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ ہُوَ یُطۡعِمُ وَ لَا یُطۡعَمُ ؕ قُلۡ اِنِّیۡۤ اُمِرۡتُ اَنۡ اَکُوۡنَ اَوَّلَ مَنۡ اَسۡلَمَ وَ لَا تَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ﴿۱۴﴾

۱۴۔ کہدیجئے:کیا میں آسمانوں اور زمین کے خالق اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو اپنا آقا بناؤں؟ جبکہ وہی کھلاتا ہے اور اسے کھلایا نہیں جاتا، کہدیجئے : مجھے یہی حکم ہے کہ سب سے پہلے اس کے آگے سر تسلیم خم کروں اور یہ (بھی کہا گیا ہے) کہ تم ہرگز مشرکین میں سے نہ ہونا۔

14۔ اگر کسی کی عبادت اس لیے کی جاتی ہے کہ وہ خالق ہے تو آسمانوں اور زمین کا خالق تو اللہ ہے۔ اگر عبادت کی وجہ یہ ہے کہ ہماری جانوں کا مالک ہے تو اللہ ہی ہر مخلوق کا مالک ہے اور اگر عبادت نعمت کی فراوانی کی بنا پر ہوتی ہے تو یہ فراوانی بھی اللہ ہی کی طرف سے ہے۔

فَاطِرِ : فطر کے لغوی معنی شگاف کے ہیں۔ اگرچہ یہ لفظ خالق کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے تاہم اللہ کا طریقۂ تخلیق شگاف ہے۔ اللہ تخم اور دانے کو چیرتا ہے۔ دانے سے تنا اس سے شاخ اس سے پتے اس سے پھول، اس سے میوے چیر کر نکالتا ہے: فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوٰى ۔ (انعام: 95) دانے اور گھٹلی کا شگافتہ کرنے والا۔

قُلۡ اِنِّیۡۤ اَخَافُ اِنۡ عَصَیۡتُ رَبِّیۡ عَذَابَ یَوۡمٍ عَظِیۡمٍ﴿۱۵﴾

۱۵۔( یہ بھی) کہدیجئے: اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو مجھے بڑے دن کے عذاب کا خوف ہے۔

15۔ قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں خوف لاحق ہونا قدرتی بات ہے۔ اس آیت میں نہایت مؤثر انداز میں یہ بات پیش کی گئی ہے۔ رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود اپنی ذات کو پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں خود اپنے رب کی نافرمانی کرتا تو مجھے بھی خوف لاحق ہو جاتا۔ یعنی معصیت کی صورت میں عدل الٰہی سے خوف آتا ہے۔

مَنۡ یُّصۡرَفۡ عَنۡہُ یَوۡمَئِذٍ فَقَدۡ رَحِمَہٗ ؕ وَ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡمُبِیۡنُ﴿۱۶﴾

۱۶۔ جس شخص سے اس روز یہ (عذاب) ٹال دیا گیا اس پر اللہ نے(بڑا ہی) رحم کیا اور یہی نمایاں کامیابی ہے۔

وَ اِنۡ یَّمۡسَسۡکَ اللّٰہُ بِضُرٍّ فَلَا کَاشِفَ لَہٗۤ اِلَّا ہُوَ ؕ وَ اِنۡ یَّمۡسَسۡکَ بِخَیۡرٍ فَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ﴿۱۷﴾

۱۷۔ اور اگر اللہ تمہیں ضرر پہنچائے تو خود اس کے سوا اسے دور کرنے والا کوئی نہیں اور اگر وہ تمہیں کوئی بھلائی عطا کرے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

وَ ہُوَ الۡقَاہِرُ فَوۡقَ عِبَادِہٖ ؕ وَ ہُوَ الۡحَکِیۡمُ الۡخَبِیۡرُ﴿۱۸﴾

۱۸۔ اور وہی اپنے بندوں پر غالب ہے اور وہی بڑا حکمت والا ، باخبر ہے۔

قُلۡ اَیُّ شَیۡءٍ اَکۡبَرُ شَہَادَۃً ؕ قُلِ اللّٰہُ ۟ۙ شَہِیۡدٌۢ بَیۡنِیۡ وَ بَیۡنَکُمۡ ۟ وَ اُوۡحِیَ اِلَیَّ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنُ لِاُنۡذِرَکُمۡ بِہٖ وَ مَنۡۢ بَلَغَ ؕ اَئِنَّکُمۡ لَتَشۡہَدُوۡنَ اَنَّ مَعَ اللّٰہِ اٰلِہَۃً اُخۡرٰی ؕ قُلۡ لَّاۤ اَشۡہَدُ ۚ قُلۡ اِنَّمَا ہُوَ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ وَّ اِنَّنِیۡ بَرِیۡٓءٌ مِّمَّا تُشۡرِکُوۡنَ ﴿ۘ۱۹﴾

۱۹۔ کہدیجئے: گواہی کے لحاظ سے کون سی چیز سب سے بڑی ہے؟ کہدیجئے: اللہ ہی میرے اور تمہارے درمیان گواہ ہے اور یہ قرآن میری طرف بذریعہ وحی نازل کیا گیا ہے تاکہ میں تمہیں اور جس تک یہ پیغام پہنچے سب کو تنبیہ کروں، کیا تم یہ گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے؟ کہدیجئے: میں تو ایسی گواہی نہیں دیتا، کہدیجئے: معبود تو صرف وہی ایک ہے اور جو شرک تم کرتے ہو میں اس سے بیزار ہوں۔

19۔ لِاُنۡذِرَکُمۡ بِہٖ وَ مَنۡۢ بَلَغَ : تاکہ میں تمہیں اور جس تک یہ پیغام پہنچے سب کی تنبیہ کروں۔ اس جملے سے قرآن کا دائمی منشور ہونا ثابت ہے کہ قیامت تک جن جن لوگوں تک یہ الٰہی پیغام پہنچے ان سب کے لیے یہ قرآن دستور حیات اور خاتم ادیان ہے۔

قرآن کا ایک دائمی منشور اور جامع نظام حیات ہونا خود اپنی جگہ ان لوگوں کے لیے ایک چیلنج ہے، جو اس قرآن اور قرآنی نظریۂ توحید پر ایمان نہیں رکھتے۔ اس چیلنج کے بعد پروردگار، منطق اور دلیل کے لہجے میں سوال فرماتا ہے: اَئِنَّکُمۡ لَتَشۡہَدُوۡنَ کیا اس کے باوجود تم یہ گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے؟ یقینا کائناتی نظام کی وحدت خالق کی وحدت کی گواہی دیتی ہے۔

اَلَّذِیۡنَ اٰتَیۡنٰہُمُ الۡکِتٰبَ یَعۡرِفُوۡنَہٗ کَمَا یَعۡرِفُوۡنَ اَبۡنَآءَہُمۡ ۘ اَلَّذِیۡنَ خَسِرُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ فَہُمۡ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ﴿٪۲۰﴾

۲۰۔ جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وہ اس (رسول) کو ایسے پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں، جنہوں نے اپنے آپ کو خسارے میں ڈال رکھا ہے، پس وہی ایمان نہیں لائیں گے۔