بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ وَ جَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَ النُّوۡرَ ۬ؕ ثُمَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِرَبِّہِمۡ یَعۡدِلُوۡنَ ﴿۱﴾

۱۔ ثنائے کامل اللہ کے لیے ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور تاریکیوں اور روشنی کو بنایا، پھر بھی یہ کافر (دوسرے دیوتاؤں کو) اپنے رب کے برابر لاتے ہیں۔

ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ طِیۡنٍ ثُمَّ قَضٰۤی اَجَلًا ؕ وَ اَجَلٌ مُّسَمًّی عِنۡدَہٗ ثُمَّ اَنۡتُمۡ تَمۡتَرُوۡنَ﴿۲﴾

۲۔ اسی نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر ایک مدت کا فیصلہ کیا اور ایک مقررہ مدت اس کے پاس ہے، پھر بھی تم تردد میں مبتلا ہو۔

2۔ انسانی جسم کی تخلیق میں زمینی عناصر استعمال ہوئے ہیں اور اس میں کوئی عنصر ایسا نہیں ہے جو ارضی نہ ہو۔آیت کے دوسرے جملے میں دو مدتوں کا ذکر ہے۔ ایک غیر معین مدت اور ایک معین مدت۔ چنانچہ انسانی زندگی میں دو قسم کے عوامل سامنے آتے ہیں، ایک طبیعی اور دوسرا غیر طبیعی۔ انسان بھی ایک مشین ہے جو قدرتی طور پر ایک معین مدت تک کے لیے بنائی گئی ہے۔ جس طرح مشین کی زندگی کا دار و مدار مشین بنانے والے پر ہے جس کی روسے بنانے والا گارنٹی دے سکتا ہے، لیکن کسی حادثے کی صورت میں اس مشین کی زندگی مختصر ہو سکتی ہے، جس کا دار و مدار حالات پر ہے۔ بالکل اسی طرح انسان کو اللہ نے طبیعی لحاظ سے ایک مدت کے لیے بنایا ہے۔ اس مدت کے بعد انسان کو حتمی طور پر مرنا ہے، جسے ”اجل محتوم“ کہتے ہیں۔ لیکن غیر طبیعی علل و اسباب کی وجہ سے انسان کی عمر مختصر ہو سکتی ہے، یہ مدت غیر معین ہے۔ چونکہ اس کا دار و مدار حالات پر ہے، لہٰذا اسے ”اجل غیر حتمی“ کہتے ہیں۔ ”اجل محتوم“ ناقابل تغییر ہے، جبکہ ”غیر حتمی اجل“ قابل تغیر ہے۔

وَ ہُوَ اللّٰہُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ فِی الۡاَرۡضِ ؕ یَعۡلَمُ سِرَّکُمۡ وَ جَہۡرَکُمۡ وَ یَعۡلَمُ مَا تَکۡسِبُوۡنَ﴿۳﴾

۳۔ اور آسمانوں میں بھی اور زمین میں بھی وہی ایک اللہ ہے، وہ تمہاری پوشیدہ اور ظاہری باتوں کو جانتا ہے اور تمہارے اعمال کو بھی جانتا ہے۔

3۔ تمام مشرک قوموں کے مشرکانہ عقائد کی رد میں فرمایا: زمین کا دیوتا الگ اور آسمان کا دیوتا الگ نہیں ہوتا بلکہ آسمانوں اور زمین پر ایک ہی اللہ کی حکمرانی ہے۔

وَ مَا تَاۡتِیۡہِمۡ مِّنۡ اٰیَۃٍ مِّنۡ اٰیٰتِ رَبِّہِمۡ اِلَّا کَانُوۡا عَنۡہَا مُعۡرِضِیۡنَ﴿۴﴾

۴۔ اور ان کے رب کی نشانیوں میں سے جو بھی نشانی ان کے پاس آتی ہے یہ اس سے منہ موڑ لیتے ہیں۔

فَقَدۡ کَذَّبُوۡا بِالۡحَقِّ لَمَّا جَآءَہُمۡ ؕ فَسَوۡفَ یَاۡتِیۡہِمۡ اَنۡۢبٰٓؤُا مَا کَانُوۡا بِہٖ یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ﴿۵﴾

۵۔ چنانچہ جب حق ان کے پاس آیا تو انہوں نے اسے بھی جھٹلا دیا، پس جس چیز کا یہ لوگ مذاق اڑاتے ہیں اس کی خبر عنقریب انہیں معلوم ہو جائے گی۔

4۔5۔ مشرکین اور مفاد پرستوں کا ہمیشہ یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ الہی پیغام کی تکذیب کرتے ہیں اور جب بھی حق کا پیغام ان کے پاس آیا اس کا مذاق اڑایا۔جدید جاہلیت بھی آیات الہی، تعلیمات قرآن اور اسلام کے نظام حیات کا مطالعہ کیے بغیر دین اور دین والوں کا مذاق اڑاتی ہے۔

ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ خبردار فرماتا ہے کہ جس حق بات کا یہ لوگ مذاق اڑا رہے ہیں اس کا انہیں عنقریب علم ہو جائے گا۔ دنیا میں حق کی فتح و نصرت کی خبر سنیں گے اور آخرت میں عذاب الہی کے ذریعے اس مذاق کا مزہ چکھنا ہو گا۔

اَلَمۡ یَرَوۡا کَمۡ اَہۡلَکۡنَا مِنۡ قَبۡلِہِمۡ مِّنۡ قَرۡنٍ مَّکَّنّٰہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ مَا لَمۡ نُمَکِّنۡ لَّکُمۡ وَ اَرۡسَلۡنَا السَّمَآءَ عَلَیۡہِمۡ مِّدۡرَارًا ۪ وَّ جَعَلۡنَا الۡاَنۡہٰرَ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہِمۡ فَاَہۡلَکۡنٰہُمۡ بِذُنُوۡبِہِمۡ وَ اَنۡشَاۡنَا مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ قَرۡنًا اٰخَرِیۡنَ﴿۶﴾

۶۔ کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی ہی ایسی قوموں کو نابود کر دیا جنہیں ہم نے زمین میں وہ اقتدار دیا تھا جو ہم نے تمہیں نہیں دیا؟ اور ہم نے ان پر آسمان سے موسلادھار بارشیں برسائیں اور ان کے نیچے نہریں جاری کر دیں پھر ہم نے ان کے گناہوں کے سبب انہیں ہلاک کر دیا اور ان کے بعد ہم نے اور قومیں پیدا کیں۔

وَ لَوۡ نَزَّلۡنَا عَلَیۡکَ کِتٰبًا فِیۡ قِرۡطَاسٍ فَلَمَسُوۡہُ بِاَیۡدِیۡہِمۡ لَقَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّا سِحۡرٌ مُّبِیۡنٌ﴿۷﴾

۷۔اور (اے رسول) اگر ہم کاغذ پر لکھی ہوئی کوئی کتاب (بھی) آپ پر نازل کرتے اور یہ لوگ اپنے ہاتھوں سے اسے چھو بھی لیتے تب بھی کافر یہی کہتے کہ یہ ایک صریح جادو کے سوا کچھ نہیں۔

وَ قَالُوۡا لَوۡ لَاۤ اُنۡزِلَ عَلَیۡہِ مَلَکٌ ؕ وَ لَوۡ اَنۡزَلۡنَا مَلَکًا لَّقُضِیَ الۡاَمۡرُ ثُمَّ لَا یُنۡظَرُوۡنَ﴿۸﴾

۸۔ اور کہتے ہیں: اس (پیغمبر) پر فرشتہ کیوں نازل نہیں کیا گیا اور اگر ہم نے فرشتہ نازل کر دیا ہوتا تو (اب تک) فیصلہ بھی ہو چکا ہوتا پھر انہیں(ذرا)مہلت نہ دی جاتی۔

8۔ مہلت کی وضاحت یہ ہے کہ جب تک ایمان بالغیب ہے اور تعقل و تفکر کے ذریعے ایمان کی دعوت دی جاتی ہے، تب تک مہلت مل جاتی ہے، لیکن جب منکرین کے مطالبے پر ایمان شہود کی منزل میں آ جاتا ہے اور تعقل و تفکر سے گزر کر محسوسات کے مرحلے میں داخل ہو جاتا ہے تو اس کے بعد مہلت ختم ہو جاتی ہے، کیونکہ امتحان کے لیے مزید گنجائش نہیں رہتی۔ پس نتیجہ امتحان اور عذاب کا مرحلہ آ جاتا ہے۔

وَ لَوۡ جَعَلۡنٰہُ مَلَکًا لَّجَعَلۡنٰہُ رَجُلًا وَّ لَلَبَسۡنَا عَلَیۡہِمۡ مَّا یَلۡبِسُوۡنَ﴿۹﴾

۹۔اور اگر ہم اسے فرشتہ قرار دیتے بھی تو مردانہ (شکل میں) قرار دیتے اور ہم انہیں اسی شبہ میں مبتلا کرتے جس میں وہ اب مبتلا ہیں۔

9۔ اگر ہم فرشتے بھیجتے تو تمہیں وہی اشتباہ پیش آتا جواب پیش آرہا ہے۔کیونکہ ہم فرشتوں کو انسانوں کی ہدایت کے لیے بھیجتے تو لازماً لوگ انہیں دیکھ لیتے، ان سے ہم کلام ہوتے اور وہ فرشتے اطاعت کے لیے نمونہ عمل اور پابند احکام ہوتے۔اس صورت میں ساری بشری خاصیتیں ان میں ہوتیں۔ پس لوگ ان پر بھی وہی اعتراض کرتے جو رسولوں پر کرتے ہیں۔

وَ لَقَدِ اسۡتُہۡزِیٴَ بِرُسُلٍ مِّنۡ قَبۡلِکَ فَحَاقَ بِالَّذِیۡنَ سَخِرُوۡا مِنۡہُمۡ مَّا کَانُوۡا بِہٖ یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ﴿٪۱۰﴾

۱۰۔ اور آپ سے پہلے بھی رسولوں کے ساتھ تمسخر ہوتا رہا ہے آخر کار تمسخر کرنے والوں کو اسی بات نے گرفت میں لیا جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔

10۔ سنت الٰہی ہے کہ تمسخر کرنے والے اسی بات کی گرفت میں آ جاتے ہیں جس کا وہ تمسخر کرتے تھے نیز تمسخر، بذات خود دلیل اور صحیح طرز فکر کے فقدان کی دلیل ہے۔