اہل کتاب کی آپ پر ایمان لانے کی وجہ


اَلَّذِیۡنَ اٰتَیۡنٰہُمُ الۡکِتٰبَ یَعۡرِفُوۡنَہٗ کَمَا یَعۡرِفُوۡنَ اَبۡنَآءَہُمۡ ۘ اَلَّذِیۡنَ خَسِرُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ فَہُمۡ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ﴿٪۲۰﴾

۲۰۔ جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وہ اس (رسول) کو ایسے پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں، جنہوں نے اپنے آپ کو خسارے میں ڈال رکھا ہے، پس وہی ایمان نہیں لائیں گے۔

وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوۡ کَذَّبَ بِاٰیٰتِہٖ ؕ اِنَّہٗ لَا یُفۡلِحُ الظّٰلِمُوۡنَ﴿۲۱﴾

۲۱۔ اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ افترا کرے یا اس کی آیات کو جھٹلائے؟ یقینا ایسے ظالم کبھی نجات نہیں پائیں گے۔

20۔ 21۔ اہل کتاب پر نازل ہونے والی کتابوں میں رسول اکرم ﷺ کے اوصاف و شمائل ایسے بیان ہوئے تھے کہ وہ ان کو پہنچاننے میں کسی اشتباہ یا دقت کے شکار نہ ہوتے بلکہ جس طرح ایک باپ اپنے بیٹے کو ہزاروں میں سے بلا تردد پہچان لیتا ہے اسی طرح وہ رسول کریم ﷺ کو بھی پہچانتے ہیں، لہٰذا اہل کتاب کسی اشتباہ یا غلط فہمی کی وجہ سے اس رسول کے منکر نہیں ہو رہے ہیں، بلکہ ان کو رسول حق جاننے کے باجود نہیں مانتے: اَلَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِيَّ الْاُمِّيَّ الَّذِيْ يَجِدُوْنَہٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَہُمْ فِي التَّوْرٰىۃِ وَالْاِنْجِيْلِ ۔ (اعراف: 157)