آیات 20 - 21
 

اَلَّذِیۡنَ اٰتَیۡنٰہُمُ الۡکِتٰبَ یَعۡرِفُوۡنَہٗ کَمَا یَعۡرِفُوۡنَ اَبۡنَآءَہُمۡ ۘ اَلَّذِیۡنَ خَسِرُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ فَہُمۡ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ﴿٪۲۰﴾

۲۰۔ جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وہ اس (رسول) کو ایسے پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں، جنہوں نے اپنے آپ کو خسارے میں ڈال رکھا ہے، پس وہی ایمان نہیں لائیں گے۔

وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوۡ کَذَّبَ بِاٰیٰتِہٖ ؕ اِنَّہٗ لَا یُفۡلِحُ الظّٰلِمُوۡنَ﴿۲۱﴾

۲۱۔ اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ افترا کرے یا اس کی آیات کو جھٹلائے؟ یقینا ایسے ظالم کبھی نجات نہیں پائیں گے۔

تفسیر آیات

اہل کتاب پر نازل ہونے والی کتابوں میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوصاف و شمائل ایسے بیان ہوئے تھے کہ وہ ان کو پہچاننے میں کسی اشتباہ یا دقت کا شکار نہ ہوتے تھے، بلکہ ایک باپ اپنے بیٹے کو ہزاروں میں سے بلاتردد جس طرح پہچان لیتا ہے، اسی طرح وہ رسول کریمؐ کو بھی پہچانتے تھے۔ چنانچہ تفسیر قمی میں آیا ہے:

حضرت عمر نے عبد اللہ بن سلام (نو مسلم) سے پوچھا: کیا آپ لوگ اپنی کتاب میں محمد(ص) کو پہچانتے تھے؟

کہا: قسم بخدا ہم نے محمد (ص) کو آپ لوگوں کے درمیان دیکھا تو انہیں انہی صفات کا حامل پایا جو ہمارے ہاں بیان ہوئی تھیں۔ ان کو بالکل اسی طرح پہچانا جس طرح ہم اپنے بیٹے کو دوسرے لڑکوں کے درمیان پہچان لیتے ہیں۔ (تفسیر القمی ۱: ۱۹۵ سورۃ الانعام)

لہٰذا اہل کتاب کسی اشتباہ یا غلط فہمی کی وجہ سے اس رسولؐ کے منکر نہیں ہو رہے ہیں، بلکہ ان کو رسول برحق جاننے کے باجود نہیں مانتے:

اَلَّذِیۡنَ یَتَّبِعُوۡنَ الرَّسُوۡلَ النَّبِیَّ الۡاُمِّیَّ الَّذِیۡ یَجِدُوۡنَہٗ مَکۡتُوۡبًا عِنۡدَہُمۡ فِی التَّوۡرٰىۃِ وَ الۡاِنۡجِیۡلِ ۔۔۔۔ (۷ اعراف : ۱۵۷)

جو لوگ اس رسول کی پیروی کرتے ہیں جو نبی امی کہلاتے ہیں جن کا ذکر وہ اپنے ہاں توریت اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔

اَلَّذِیۡنَ خَسِرُوۡۤا: وہ رسول (ص) کی تکذیب کر کے پہلے ہی اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈال چکے ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ اللہ کے اٹل فیصلے کی زد میں آ چکے ہیں، اس کے بعد ایمان نہیں لائیں گے:

ا ِاِنَّ الَّذِیۡنَ حَقَّتۡ عَلَیۡہِمۡ کَلِمَتُ رَبِّکَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ (۱۰ یونس: ۹۶)

جن لوگوں کے بارے میں آپ کے رب کا فیصلہ قرار پا چکا ہے، وہ یقینا ایمان نہیں لائیں گے۔

وَ مَنۡ اَظۡلَمُ: ظلم و زیادتی کی نوعیت کو پرکھنے کے لیے اگر کوئی پیمانہ ہے تو اس ظلم سے زیادہ کون سا ظلم ہو سکتا ہے، جس کا تعلق اللہ تعالیٰ کی قدسیت سے ہو۔ واضح رہے کہ افتراء ایک ایسا جرم ہے کہ اگر کسی مؤمن یا مؤمنہ پر زنا کی تہمت لگائی جائے تو اسّی کوڑوں کی سزا ہے۔ اگر رسول اللہ (ص) کی طرف کوئی بات جھوٹی منسوب کی جائے تو اس کی سزا جہنم ہے۔ رسول اللہ (ص) سے روایت ہے:

ف َمَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّداً فَلْیَتَبَوَّأَ مَقْعَدَہُ مَنَ النَّارِ ۔ (الکافی ۱: ۶۲ صحیح البخاری، کتاب الجنائز ، ۵: ۳۷ باب ۳۳ )

جو میری طرف جھوٹی نسبت دے، وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنائے۔

اگر یہ جھوٹی نسبت اللہ کی طرف ہو تو جرم انتہا کو پہنچ جاتا ہے۔

لَا یُفۡلِحُ الظّٰلِمُوۡنَ: فلاح سے مراد سعادت ہے۔ یہ ایک کلیہ ہے کہ جو ظلم کی اس سطح کو پہنچ جائے گا، اس کے لیے کوئی سعادت نہیں ہے۔

اہم نکات

کل کے اہل کتاب رسول (ص) کی شخصیت کو ایسے پہچانتے تھے، جیسے اپنے بیٹوں کو۔ آج کے اہل کتاب اس دین کی حقانیت کو بھی ایسے ہی پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو۔


آیات 20 - 21