آیت 14
 

قُلۡ اَغَیۡرَ اللّٰہِ اَتَّخِذُ وَلِیًّا فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ ہُوَ یُطۡعِمُ وَ لَا یُطۡعَمُ ؕ قُلۡ اِنِّیۡۤ اُمِرۡتُ اَنۡ اَکُوۡنَ اَوَّلَ مَنۡ اَسۡلَمَ وَ لَا تَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ﴿۱۴﴾

۱۴۔ کہدیجئے:کیا میں آسمانوں اور زمین کے خالق اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو اپنا آقا بناؤں؟ جبکہ وہی کھلاتا ہے اور اسے کھلایا نہیں جاتا، کہدیجئے : مجھے یہی حکم ہے کہ سب سے پہلے اس کے آگے سر تسلیم خم کروں اور یہ (بھی کہا گیا ہے) کہ تم ہرگز مشرکین میں سے نہ ہونا۔

تشریح کلمات

فَاطِرِ:

( ف ط ر ) الفطر ۔ شق ہونے کے معنوں میں ہیں جیسے اِذَا السَّمَآءُ انۡفَطَرَتۡ: میں شق ہونے کے معنوں میں ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ قُلۡ اَغَیۡرَ اللّٰہِ: اگر کسی کی عبادت اس لیے کی جاتی ہے کہ وہ خالق ہے تو آسمان اور زمین کا خالق اللہ ہے۔ اگر عبادت کا مقصد یہ ہے کہ وہ ہماری جانوں کا مالک ہے تو اللہ ہی ہر مخلوق کا مالک ہے۔

۲۔ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ: میرا آقا وہ ہے جو آسمانوں اور زمین کا ایجاد کرنے والا ہے۔ فَاطِرِ کے لغوی معنی شق کرنے کے ہیں اور یہ ایجاد کے معنوںمیں استعمال ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو عدم کی تاریکی کو شق کر کے وجود کی روشنی عنایت فرمائی۔

۳۔ وَہُوَيُطْعِمُ: اگر عبادت کے سامنے یہ محرک موجود ہے کہ وہ منعم ہے، اس کی طرف سے نعمت کی فرادانی ہے، تو وہ ذات بھی اللہ ہی ہے۔ لہٰذا تمام جدید و قدیم بتوں کو چھوڑ کر اسی کے آگے سر تسلیم خم کرنا ہو گا اور اسی کو اپنا آقا اور مولا بنانا ہو گا۔

۴۔ قُلۡ اِنِّیۡۤ اُمِرۡتُ: رسول (ص) کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ تسلیم و رضا میں اول درجہ پر فائز رہیں۔

۵۔ وَ لَا تَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ: اور آپ ہرگز مشرکین میں سے نہ ہونا۔ اس خطاب میں یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کسی قسم کا شرک سرزد ہونے کا خطرہ تھا، بلکہ یہ بتانے کے لیے کہ شرک ایک ہلاکت ہے اور ابدی زندگی کی تباہی ہے۔

اہم نکات

۱۔ کائنات میں حق ولایت صرف اللہ کے پاس ہے یا اس کے پاس جسے وہ ولایت عطا کرے۔

۲۔ رازق وہ ہے جو خود رزق کا محتاج نہ ہو۔

۳۔ رسول کریم (ص) بلحاظ درجہ و رتبہ اول المسلمین ہیں اور بلحاظ زمان بھی۔

۴۔ بت پرستی خواہ جس شکل و صورت میں ہو، مسلم کو ہمیشہ یہ حکم ہے: قُلۡ اَغَیۡرَ اللّٰہِ اَتَّخِذُ وَلِیًّا ۔۔۔۔


آیت 14