آیت 12
 

قُلۡ لِّمَنۡ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ قُلۡ لِّلّٰہِ ؕ کَتَبَ عَلٰی نَفۡسِہِ الرَّحۡمَۃَ ؕ لَیَجۡمَعَنَّکُمۡ اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ لَا رَیۡبَ فِیۡہِ ؕ اَلَّذِیۡنَ خَسِرُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ فَہُمۡ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ﴿۱۲﴾

۱۲۔ ان سے پوچھ لیجیے: آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ کس کا ہے؟ کہدیجئے: (سب کچھ) اللہ ہی کا ہے، اس نے رحمت کو اپنے پر لازم کر دیا ہے، وہ تم سب کو قیامت کے دن جس کے آنے میں کوئی شک نہیں ضرور بہ ضرور جمع کرے گا جنہوں نے اپنے آپ کو خسارے میں ڈال رکھا ہے وہ ایمان نہیں لائیں گے۔

تفسیر آیات

۱۔ قُلۡ لِّمَنۡ مشرکین جب اس بات کو تسلیم کر لیتے تھے کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اس کا مالک اللہ ہے تو ان پرحجت قائم ہو گئی کہ پھر اللہ کو چھوڑ کر تم بتوں سے کیا لینا چاہتے ہو۔

۲۔ کَتَبَ عَلٰی نَفۡسِہِ الرَّحۡمَۃَ اللہ تعالیٰ نے خود رحمت کو اپنے پر لازم کر دیا ہے۔ واضح رہے رحمت، ذات الٰہی کا لازمۂ ذات ہے۔ ممکن نہیں ذات الٰہی ہو اور اس سے رحمت کا فیض جاری نہ ہو۔ اللہ کے بارے میں اہل علم میں یہ مقولہ مشہور ہے: لا انقطاع فی الفیض ۔ لہٰذا یہ بات ناقابل تصور ہے کہ ذات خداوندی سے فیض رحمت کا سلسلہ ایک لمحے کے لیے بھی بند ہو۔ لہٰذا کَتَبَ عَلٰی نَفۡسِہِ کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک قرارداد کے ذریعے رحمت کو اپنے اوپر لازم قرار دیا ہے۔ وہ ارحم الرٰحمین ہے۔ وہ انسان کی تخلیق میں رحیم ہے کہ انسان کو احسن تقویم کے سانچے میں ڈھالا۔وہ انسان کے لیے تسخیر کائنات میں رحیم ہے۔ وہ انسان کی تعلیم و تربیت میں رحیم ہے۔ اس کی ہدایت و رہنمائی میں رحیم ہے۔ عفو و درگزر میں رحیم ہے۔ قیامت کے دن قائم ہونے والی عدالت گاہ میں بھی رحیم و کریم ہے۔ اس رحیم و کریم رب کو چھوڑ کر بتوں کے سامنے کس لیے جھکتے ہو؟ جاہلیت جدید میں دولت و اقتدار والوں کے سامنے کس لیے جھکتے ہو؟

رحمت اللہ پر واجب ہے: خود اللہ نے اپنے ذمے رحمت کو واجب و لازم گردانا ہے، کسی اور کی طرف سے نہیں۔ لہٰذا اشعریہ کا یہ عقیدہ قطعاً فاسد ہے، جو کہتے ہیں: اللہ پر کوئی شے واجب نہیں ہے۔ اللہ جو چاہے کر سکتا ہے، مؤمنین کو جہنم اور کفار کو جنت بھیج سکتا ہے، البتہ ایسا کرنے کا اللہ عادی نہیں ہے۔

لَیَجۡمَعَنَّکُمۡ اس رحمت الٰہی کا لازمہ ہے کہ اپنے بندوں کے نیک اعمال کا ثواب دینے کے لیے قیامت کے دن سب کوجمع کرتا ہے، پھر ان پر اپنی رحمتوں کا نزول فرماتا ہے۔

اَلَّذِیۡنَ خَسِرُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ اس وقت معلوم ہو جائے گا کہ ایمان نہ لانے والے اس رحمت سے محروم رہ کر کس قدر خسارے میں ہوں گے۔

رسول کریمؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

اِنَّ رَحْمَتِی سَبَقَتْ غَضَبِی۔ (اصول الکافی ۲: ۲۷۴۔ باب الذنوب)

میری رحمت میرے غضب سے پہلے ہے۔

اہم نکات

انسان کو اس رب سے ساری امیدیں رکھنی چاہئیں جو:

i۔ آسمانوں اور زمین کا مالک ہے،

ii۔ جس نے رحمت کو اپنے ذمے لازم قرار دے دیا ہے۔ یہ رحمت، ذات الٰہی کا لازمہ ہے۔

iii۔ قیامت کے دن اس کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے۔


آیت 12