آیات 15 - 18
 

قُلۡ اِنِّیۡۤ اَخَافُ اِنۡ عَصَیۡتُ رَبِّیۡ عَذَابَ یَوۡمٍ عَظِیۡمٍ﴿۱۵﴾

۱۵۔( یہ بھی) کہدیجئے: اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو مجھے بڑے دن کے عذاب کا خوف ہے۔

مَنۡ یُّصۡرَفۡ عَنۡہُ یَوۡمَئِذٍ فَقَدۡ رَحِمَہٗ ؕ وَ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡمُبِیۡنُ﴿۱۶﴾

۱۶۔ جس شخص سے اس روز یہ (عذاب) ٹال دیا گیا اس پر اللہ نے(بڑا ہی) رحم کیا اور یہی نمایاں کامیابی ہے۔

وَ اِنۡ یَّمۡسَسۡکَ اللّٰہُ بِضُرٍّ فَلَا کَاشِفَ لَہٗۤ اِلَّا ہُوَ ؕ وَ اِنۡ یَّمۡسَسۡکَ بِخَیۡرٍ فَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ﴿۱۷﴾

۱۷۔ اور اگر اللہ تمہیں ضرر پہنچائے تو خود اس کے سوا اسے دور کرنے والا کوئی نہیں اور اگر وہ تمہیں کوئی بھلائی عطا کرے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

وَ ہُوَ الۡقَاہِرُ فَوۡقَ عِبَادِہٖ ؕ وَ ہُوَ الۡحَکِیۡمُ الۡخَبِیۡرُ﴿۱۸﴾

۱۸۔ اور وہی اپنے بندوں پر غالب ہے اور وہی بڑا حکمت والا ، باخبر ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ قُلۡ اِنِّیۡۤ اَخَافُ: مجھے خوف ہے۔ مشرکین عذاب کے خوف سے بچنے کے لیے بتوں کو شفیع بناتے تھے۔ اس آیت میں نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ اس تصور کو ردکیا ہے کہ معصیت کی صورت میں کوئی فرد یا کوئی قوم یا کوئی نژاد عذاب سے بچ سکتی ہے۔ یہاں حکم ہوا ہے کہ حضورؐ اپنی ذات کو پیش کریں کہ اگر میں خود اپنے رب کی نافرمانی کروں تومجھے عذاب کا خوف ہے۔ معصیت کی صورت میں اللہ کے عدل سے خوف آنا چاہیے۔

۲۔ مَنۡ یُّصۡرَفۡ عَنۡہُ: اگر کوئی اس یوم عظیم کے خوف سے بچا سکتا ہے تو وہ صرف اللہ ہے، بت نہیں۔ اسی طرح اگر کسی خطرے سے بچانے والا کوئی ہے تو بھی وہی ذات ہے۔ اگر کوئی نعمت عطا کرنے والاہے تو صرف اللہ کی ذات ہے۔ اگر تمام بندوں پر کامل اختیا ر رکھنے والا کوئی ہے تو وہ ذات بھی صرف اللہ ہی ہے۔

۳۔ فَقَدۡ رَحِمَہٗ: اس جملے سے واضح ہوا کہ معصیت کی صورت میں بھی عذاب ٹل سکتا ہے۔ اس کے لیے اللہ کی رحمت کا قائل ہونا چاہیے۔ بندے کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو اللہ کی رحمت کے لیے اہل بنائے تو یہ عذاب ٹل سکتا ہے۔ چونکہ رحمت الٰہی کا اہل ہونے کے بعد رحمت کا شامل حال ہونا لازمی ہے۔

۴۔ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡمُبِیۡنُ: اللہ کی رحمت کے حصول میں کامیابی سے زیادہ کوئی کامیابی نہیں ہے۔ لہٰذا اہل ایمان کو چاہیے کہ وہ قدیم و جدید بتوں کی چوکھٹ پر دستک دینے کی بجائے اللہ کی بارگاہ کی طرف رجوع کریں۔

۵۔ وَ اِنۡ یَّمۡسَسۡکَ اللّٰہُ: اگر اللہ کے وضع کردہ نظام کے تحت آپ کو کوئی ضرر پہنچ جائے، کوئی مرض یا فقر لاحق ہو جائے، کوئی طوفان آ جائے تو اس سے بچانے کے لیے خود اللہ کے سوا کوئی نہیں ہے۔ چنانچہ پیغمبر اکرم (ص) سے مروی دعا میں آیا ہے:

لَا مَلْجَأَ وَ لاَ مُنْجَی وَ لَا مَفَرَّ مِنْکَ اِلَّا اِلَیْکَ ۔ ( الفقیہ ۱: ۳۰۳ باب وصف الصلاۃ عن فاتحتھا الی خاتمۃ )

خود تیری جانب کے سوا نہ کوئی پناہ ہے، نہ جائے نجات، نہ جائے فرار ہے۔

۶۔ وَ اِنۡ یَّمۡسَسۡکَ بِخَیۡرٍ: اگر اللہ کی طرف سے صحت، مال و دولت اور آسائش میسر آ جائے تو ان سب چیزوں پر اللہ کو قدرت حاصل ہے۔ فقر و تنگدستی سے دوچار کرنے اور مال و دولت سے مالا مال کرنے پر اللہ کو قدرت حاصل ہے۔

۷۔ وَ ہُوَ الۡقَاہِرُ فَوۡقَ عِبَادِہٖ: اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں پر ایسا غلبہ حاصل ہے کہ اس کی مشیت کے بغیر ایک پتہ بھی نہیں ہل سکتا۔ اس جگہ روح المعانی کی تفسیر قابل مطالعہ ہے، جو کہتے ہیں:

ان اللہ ذات قائم بنفسہ غیر لخالط للعالم ۔

اللہ بذات خود قائم ہے۔ عالم کے ساتھ مخلوط نہیں ہے۔

پھر آگے وہ حدیث نقل کرتے ہیں، جس میں رسول اللہؐ نے فرمایا:

ان اللہ فوق عرشہ و عرشہ فوق سماواتہ و قال باصابعہ مثل القبۃ و انہ لیئط بہ اطیط الرحل الجدید براکبہ ۔

اللہ اپنے عرش پر ہے۔ اس کا عرش اس کے آسمانوں کے اوپر ہے۔ پھر اپنی انگلیوں کے اشارے سے بتایا: گنبد کی طرح اور اللہ (کے بیٹھنے) سے عرش میں چڑچڑاہٹ ہوتی جس طرح نئی زین پر سوار کے بیٹھنے سے ہوتی ہے۔

اس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ یہ لوگ اللہ کے لیے فوق مکانی کے قائل ہیں، جب کہ یہاں فوق سے مراد قوت و غلبہ ہے۔ جیسا کہ فرعون نے کہا تھا: وَ اِنَّا فَوۡقَہُمۡ قٰہِرُوۡنَ ۔ (۷ اعراف: ۱۲۷) اور سورہ آل عمران میں فرمایا: وَ جَاعِلُ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡکَ فَوۡقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا ۔۔۔۔ (۳ آل عمران: ۵۵)

۸۔ وَ ہُوَ الۡحَکِیۡمُ الۡخَبِیۡرُ: اس قوت و غلبہ کے باوجود اللہ جو بھی عمل انجام دیتا ہے، وہ حکمت و دانائی کی بنیاد پر انجام دیتا ہے۔ کسی کو مال و دولت سے مالا مال کرنا یا کسی کو فقیر و تنگدست بنانا، اپنے حکیمانہ عمل کے تحت ہو گا۔

اہم نکات

۱۔ معصیت کی صورت میں اللہ کے عدل سے خوف رکھنا چاہیے: اِنِّیۡۤ اَخَافُ ۔۔۔۔

۲۔ ہمیشہ اللہ کی رحمت سے امیدیں وابستہ رکھنی چاہئیں: فَقَدۡ رَحِمَہٗ ۔۔۔۔

۳۔دفع بلا و جذب عطا کے سلسلے میں کامل اختیار اسی کو حاصل ہے۔


آیات 15 - 18