اِنَّ اللّٰہَ رَبِّیۡ وَ رَبُّکُمۡ فَاعۡبُدُوۡہُ ؕ ہٰذَا صِرَاطٌ مُّسۡتَقِیۡمٌ﴿۵۱﴾

۵۱۔ بیشک اللہ میرا رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے لہٰذا تم اس کی بندگی کرو، یہی سیدھا راستہ ہے۔

فَلَمَّاۤ اَحَسَّ عِیۡسٰی مِنۡہُمُ الۡکُفۡرَ قَالَ مَنۡ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ ؕ قَالَ الۡحَوَارِیُّوۡنَ نَحۡنُ اَنۡصَارُ اللّٰہِ ۚ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ ۚ وَ اشۡہَدۡ بِاَنَّا مُسۡلِمُوۡنَ﴿۵۲﴾

۵۲۔ جب عیسیٰ نے محسوس کیا کہ وہ لوگ کفر اختیار کر رہے ہیں تو بولے: اللہ کی راہ میں کون میرا مددگار ہو گا؟ حواریوں نے کہا: ہم اللہ کے مددگار ہیں، ہم اللہ پر ایمان لائے ہیں اور آپ گواہ رہیں کہ ہم فرمانبردار ہیں۔

رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا بِمَاۤ اَنۡزَلۡتَ وَ اتَّبَعۡنَا الرَّسُوۡلَ فَاکۡتُبۡنَا مَعَ الشّٰہِدِیۡنَ﴿۵۳﴾

۵۳۔ہمارے رب! جو تو نے نازل فرمایا اس پر ہم ایمان لائے اور ہم نے رسول کی پیروی قبول کی پس ہمارا نام بھی گواہوں کے ساتھ لکھ دے۔

53۔ دعوت و تبلیغ اور ہدایت و رہبری کے مقام پر فائز ہونے اور اَنۡصَارُ اللّٰہِ کا مقام حاصل کرنے کے بعد شّٰہِدِیۡنَ میں شمار کرنے کی درخواست کی گئی جو اس مقام کا ایک لازمی امر ہے۔ یعنی جو امت کی ہدایت و رہبری کی ذمہ داری پوری کرتا ہے، وہ اس امت کے حق میں یا اس کے خلاف گواہی دینے کا مجاز ہوتا ہے، جو ایک عظیم منصب ہے۔ چنانچہ سورہ بقرہ آیت 143 میں ذکر ہوا کہ کون لوگ امت وسط اور شاہد ہیں۔

وَ مَکَرُوۡا وَ مَکَرَ اللّٰہُ ؕ وَ اللّٰہُ خَیۡرُ الۡمٰکِرِیۡنَ﴿٪۵۴﴾ ۞ؓ

۵۴۔ان لوگوں نے(عیسیٰ کے قتل کی) تدابیر سوچیں اور اللہ نے (بھی جوابی) تدبیر فرمائی اور اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔

اِذۡ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ وَ مُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ جَاعِلُ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡکَ فَوۡقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ ۚ ثُمَّ اِلَیَّ مَرۡجِعُکُمۡ فَاَحۡکُمُ بَیۡنَکُمۡ فِیۡمَا کُنۡتُمۡ فِیۡہِ تَخۡتَلِفُوۡنَ﴿۵۵﴾

۵۵۔ جب اللہ نے فرمایا: اے عیسیٰ اب میں تمہاری مدت پوری کر رہا ہوں اور تمہیں اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور تمہیں کافروں (کی ناپاک سازشوں) سے پاک کرنے والا ہوں اور جو لوگ تمہاری پیروی کریں گے انہیں قیامت تک کفر اختیار کرنے والوں پر بالادست رکھوں گا، پھر تم لوگوں کو میری طرف لوٹ کر آنا ہے، پھر اس وقت میں تمہارے درمیان (ان باتوں کا) فیصلہ کروں گا جن میں تم اختلاف کرتے رہے ہو۔

55۔ مُتَوَفِّیۡکَ :سے مراد وفات نہیں، مدت پوری کرنا ہے کیونکہ ٭ مَکَرُوۡا وَ مَکَرَ اللّٰہُ ، یہودیوں نے قتل عیسیٰ علیہ السلام کی سازش کی تھی جسے اللہ نے ناکام بنا دیا۔ مُتَوَفِّیۡکَ کے معنی وفات لینے سے یہود کی ناکامی ثابت نہیں ہوتی، جب کہ آیت کے مطابق یہود ناکام ہو گئے۔٭سورہ النساء آیت 157 میں فرمایا: وَ مَا قَتَلُوۡہُ وَ مَا صَلَبُوۡہُ وہ نہ آپ کو قتل کر سکے نہ سولی چڑھا سکے۔ ٭ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ ، میں تجھے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں۔ چنانچہ سورة النساء میں اٹھانے کو قتل کے مقابلے میں ذکر کیا ہے: وَ مَا قَتَلُوۡہُ یَقِیۡنًۢا۝ بَلۡ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیۡہِ ۔ جمال الدین قاسمی اپنی تفسیر محاسن التاویل 4:108 میں اس آیت کے ذیل میں دلائل دیتے ہیں: اللہ تعالیٰ آسمانوں کے اوپر ہے۔ پھر کہتے ہیں: و ھو مذھب السلف قاطبۃ۔ یہ تمام علمائے سلف کا نظریہ ہے۔ پھر فرماتے ہیں: و قد اتفقت کلمۃ المسلمین ان اللّہ فوق عرشہ فوق سماواتہ۔ تمام مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ اللہ اپنے عرش کے اوپر ہے، اپنے آسمانوں کے اوپر ہے۔ اس سلسلے میں اہل بیت علیہ السلام کا نظریۂ توحید ملاحظہ فرمائیں۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: ومن قال فیم فقد ضمنہ و من قال علام فقد اخلی منہ ۔ (نہج البلاغۃ خطبہ اوّل) جس نے یہ کہا کہ اللہ کس چیز میں ہے، اس نے اسے کسی شے کے ضمن میں فرض کر لیا اور جس نے یہ کہا کہ اللہ کس چیز پر ہے، اس نے اور جگہیں اس سے خالی سمجھ لیں۔

فَاَمَّا الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا فَاُعَذِّبُہُمۡ عَذَابًا شَدِیۡدًا فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ ۫ وَ مَا لَہُمۡ مِّنۡ نّٰصِرِیۡنَ﴿۵۶﴾

۵۶۔پس جنہوں نے کفر اختیار کیا ان کو دنیا و آخرت میں سخت عذاب دوں گا اور ان کا کوئی فریاد رس نہ ہو گا۔

وَ اَمَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَیُوَفِّیۡہِمۡ اُجُوۡرَہُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیۡنَ﴿۵۷﴾

۵۷۔اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اللہ انہیں ان کا پورا صلہ دے گا اور اللہ ظالموں سے ہرگز محبت نہیں کرتا۔

ذٰلِکَ نَتۡلُوۡہُ عَلَیۡکَ مِنَ الۡاٰیٰتِ وَ الذِّکۡرِ الۡحَکِیۡمِ﴿۵۸﴾

۵۸۔ یہ اللہ کی نشانیاں اور حکمت بھری نصیحتیں ہیں جو ہم آپ کو پڑھ کر سنا رہے ہیں۔

58۔ حضرت مسیح علیہ السلام کے حالات و واقعات کو حقیقت کے مطابق بیان کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ قرآن اللہ کی طرف سے ہے۔ کیونکہ عصر رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تاریخ سے آگاہی کا کوئی وسیلہ موجود نہیں تھاـ اور عرب قوم تو ایک ناخواندہ قوم تھیـ۔ جزیرہ نمائے عرب کبھی علمی مرکز نہیں رہا تھا، لہٰذا ان کے واقعات کا صحیح علم صرف وحی کے ذریعے سے ہی ممکن تھا۔

اِنَّ مَثَلَ عِیۡسٰی عِنۡدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ ؕ خَلَقَہٗ مِنۡ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ﴿۵۹﴾

۵۹۔بیشک اللہ کے نزدیک عیسیٰ کی مثال آدم کی سی ہے کہ اس نے پہلے اسے مٹی سے خلق کیا، پھر اسے حکم دیا: ہو جا اور وہ ہو گیا۔

اَلۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکَ فَلَا تَکُنۡ مِّنَ الۡمُمۡتَرِیۡنَ﴿۶۰﴾

۶۰۔ حق آپ کے رب کی طرف سے ہے، پس آپ شک کرنے والوں میں سے نہ ہوں۔