آیت 59
 

اِنَّ مَثَلَ عِیۡسٰی عِنۡدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ ؕ خَلَقَہٗ مِنۡ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ﴿۵۹﴾

۵۹۔بیشک اللہ کے نزدیک عیسیٰ کی مثال آدم کی سی ہے کہ اس نے پہلے اسے مٹی سے خلق کیا، پھر اسے حکم دیا: ہو جا اور وہ ہو گیا۔

تفسیر آیات

یہ آیت نصارائے نجران کے وفد کے بارے میں نازل ہوئی۔ نجران کے عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ابن اللہ ہونے کی بنیادی دلیل یہ پیش کی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش عام طریقوں سے مختلف اور بغیر باپ کے ہوئی ہے، لہٰذا وہ ما فوق البشر اور ابن اللہ ہیں۔

اس آیت میں یہ جواب دیا گیا کہ عام طریقوں کے خلاف بغیر باپ کے پیدا ہونا، اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ ما فوق البشر ہیں۔ آدم (ع) کی مثال موجود ہے۔ وہ بھی ماں باپ کے بغیر پیدا ہوئے، پھر بھی وہ بشر اور اللہ کی مخلوق ہیں۔ عیسائیوں کی دلیل کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام کے ابن اللہ ہونے کے لیے دو باتیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بیشتر موجود ہیں:

i۔ آدم علیہ السلام ماں باپ دونوں کے بغیرپیداہوئے، جب کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام صرف باپ کے بغیر پیدا ہوئے۔

ii۔ آدم علیہ السلام کسی جاندار سے پیدانہیں ہوئے، بلکہ مٹی سے پیدا ہوئے، جو بے جان ہے۔ جب کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرت مریم (س) کے بطن سے پیدا ہوئے۔

یہ استدلال یہود و نصاریٰ دونوں کے خلاف ایک تیر دو ہدف تھا۔ یہودیوں کے خلاف اس طرح کہ بغیر باپ کے پیدا ہونا کوئی ناممکن امر نہیں۔ خدا کے لیے بے جان چیزوں سے انسان پیدا کرنا اتنا ہی آسان ہے جتنا ایک انسان سے۔ نصاریٰ کے خلاف یوں کہ بغیر باپ کے پیدا ہونے سے خدا کا بیٹا ہونا لازم نہیں آتا، جیسا کہ آدم علیہ السلام مٹی سے پیدا ہونے کے باجود اللہ کا بیٹا نہیں کہلائے۔

اہم نکات

۱۔ باپ کے بغیر بچہ پیدا کرنا اللہ کے لیے اتنا ہی آسان ہے، جتنا ماں باپ دونوں کے بغیر مٹی سے پیدا کرنا۔


آیت 59