آیات 50 - 51
 

وَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوۡرٰىۃِ وَ لِاُحِلَّ لَکُمۡ بَعۡضَ الَّذِیۡ حُرِّمَ عَلَیۡکُمۡ وَ جِئۡتُکُمۡ بِاٰیَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ ۟ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوۡنِ﴿۵۰﴾

۵۰۔ اور اپنے سے پیشتر آنے والی توریت کی تصدیق کرتا ہوں اور جو چیزیں تم پر حرام کر دی گئی تھیں ان میں سے بعض کو تمہارے لیے حلال کرنے آیا ہوں اور میں تمہارے رب کی طرف سے نشانی لے کر تمہارے پاس آیا ہوں، لہٰذا اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

اِنَّ اللّٰہَ رَبِّیۡ وَ رَبُّکُمۡ فَاعۡبُدُوۡہُ ؕ ہٰذَا صِرَاطٌ مُّسۡتَقِیۡمٌ﴿۵۱﴾

۵۱۔ بیشک اللہ میرا رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے لہٰذا تم اس کی بندگی کرو، یہی سیدھا راستہ ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ مُصَدِّقًا: قرآن کریم اس حقیقی توریت کی تصدیق فرما رہا ہے جس کی تعلیم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دی گئی تھی۔ ورنہ مروجہ توریت کے بارے میں تو قرآن کا مؤقف یہ ہے کہ اس میں تحریف واقع ہوئی ہے۔

۲۔ وَ لِاُحِلَّ لَکُمۡ : حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں: میں شریعت موسوی میں جزوی ترمیم و تنسیخ کے ساتھ اسی کی تکمیل و تشریح کرنے آیا ہوں۔ اگر میں سچا نبی نہ ہوتا تو کسی نئے دین کی بنیاد رکھتا۔ سابقہ دین کی تائید اس بات کی دلیل ہے کہ میری نبوت بھی سلسلۂ نبوت کی ایک کڑی ہے۔

۳۔ وَ جِئۡتُکُمۡ بِاٰیَۃٍ: اپنی دعوت کی حقانیت پر دلیل اور معجزہ بھی رکھتا ہوں۔ لہٰذا خوف خدا رکھنے والوں کے لیے میری اطاعت لازم ہے۔

۴۔ اِنَّ اللّٰہَ رَبِّیۡ: اس جملے میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ عبادت صرف رب کی ہوتی ہے۔ اس لیے ہم نے عبادت کی یہ تعریف کی ہے: کسی کو خالق یا رب تسلیم کر کے اس کی تعظیم کرنا عبادت ہے۔

اہم نکات

۱۔ پہلے اظہار معجزہ پھر اطاعت کی دعوت:۔۔۔ وَ جِئۡتُکُمۡ بِاٰیَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ ۟ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوۡنِ ۔

۲۔ عبادت صرف اس کی کرو جو رب ہے: اِنَّ اللّٰہَ رَبِّیۡ وَ رَبُّکُمۡ فَاعۡبُدُوۡہُ ۔۔۔۔


آیات 50 - 51