آیت 55
 

اِذۡ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ وَ مُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ جَاعِلُ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡکَ فَوۡقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ ۚ ثُمَّ اِلَیَّ مَرۡجِعُکُمۡ فَاَحۡکُمُ بَیۡنَکُمۡ فِیۡمَا کُنۡتُمۡ فِیۡہِ تَخۡتَلِفُوۡنَ﴿۵۵﴾

۵۵۔ جب اللہ نے فرمایا: اے عیسیٰ اب میں تمہاری مدت پوری کر رہا ہوں اور تمہیں اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور تمہیں کافروں (کی ناپاک سازشوں) سے پاک کرنے والا ہوں اور جو لوگ تمہاری پیروی کریں گے انہیں قیامت تک کفر اختیار کرنے والوں پر بالادست رکھوں گا، پھر تم لوگوں کو میری طرف لوٹ کر آنا ہے، پھر اس وقت میں تمہارے درمیان (ان باتوں کا) فیصلہ کروں گا جن میں تم اختلاف کرتے رہے ہو۔

تشریح کلمات

مُتَوَفِّی:

( و ف ی ) توفی، توفیہ ۔ یہ کلمہ کسی قسم کی کمی کے بغیر پورا پورا دے دینے یا پورا کرنے یا پورا لینے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے:

ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفۡسٍ ۔۔۔۔(۲ بقرہ: ۲۸۱)

پھر وہاں ہر شخص کو اس کے کیے کا پورا بدلہ مل جائے گا۔

مدت پوری ہونے یا زندگی پوری ہونے، یعنی موت کی آمدکے لیے بھی استعمال ہوتا ہے:

اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الۡاَنۡفُسَ حِیۡنَ مَوۡتِہَا ۔۔۔ (۳۹ زمر: ۴۲)

موت کے وقت اللہ روحوں کو قبض کرتا ہے۔

تفسیر آیات

اس آیۂ مبارکہ میں درج ذیل امور زیر بحث آئے ہیں:

الف۔ اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ: کیااس سے مراد موت ہے؟ اور کیا اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے فرما رہا ہے کہ میں تجھے موت دینے والا ہوں؟یا اس سے مراد مدت رسالت و تبلیغ کا پور اکرنا ہے اور اللہ تعالیٰ ارشاد فرما رہا ہے کہ میں اب تمہاری مدت تبلیغ و رسالت پوری کرنے والا ہوں اورتجھے اپنے پاس اٹھانے والا ہوں؟

دوسرا معنی مراد لینے کے حق میں چند ایک قرائن موجود ہیں:

وَ مَکَرُوۡا وَ مَکَرَ اللّٰہُ: یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کی تدبیر سوچی اور اللہ نے بھی اپنی تدبیر اختیار فرمائی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہودی اپنی سازش میں ناکام ہوئے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ رہے۔ اگر متوفی کامطلب موت لیا جائے تو یہودی تدبیر کو کامیاب ماننا پڑے گا۔ کیونکہ ان کی تدبیر کا ہدف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت تھی۔

ii۔ سورئہ نساء میں فرمایا:

وَ مَا قَتَلُوۡہُ وَ مَا صَلَبُوۡہُ وَ لٰکِنۡ شُبِّہَ لَہُمۡ ۔۔۔ (۴ نساء: ۱۵۷)

جبکہ فی الحقیقت انہوں نے نہ انہیں قتل کیا اور نہ سولی چڑھایا بلکہ (دوسرے کو) ان کے لیے شبیہ بنا دیا گیا تھا۔

iii۔ وَ رَافِعُکَ: اور تمہیں اپنی طرف اٹھانے والا ہوں۔ سورئہ نساء میں فرمایا:

وَ مَا قَتَلُوۡہُ یَقِیۡنًۢا﴿﴾بَلۡ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیۡہِ ۔۔۔۔ (۴ نساء:۱۵۷۔ ۱۵۸)

اور انہوں نے مسیح کویقیناً قتل نہیں کیا۔ بلکہ اللہ نے انہیں اپنی طرف اٹھایا۔۔۔۔

یہاں قتل کی نفی کر کے اٹھانے کا تذکرہ اس بات کی دلیل ہے کہ انہیں زندہ اٹھایا گیا ہے۔

iv۔ سورئہ نساء میں فرمایا:

وَ اِنۡ مِّنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤۡمِنَنَّ بِہٖ قَبۡلَ مَوۡتِہٖ ۔۔ (۴نساء: ۱۵۹)

اور اہل کتاب میں سے کوئی ایسا نہیں جو ان کی موت سے پہلے ان پرایمان نہ لائے۔۔۔۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ علیہ السلام کو موت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک سب اہل کتاب ایمان نہ لے آئیں۔

v۔ احادیث میں بکثرت مذکور ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے زندہ آسمان پر اٹھا لیا۔ بعض مفسرین نے تو کہا ہے کہ یہ احادیث تواتر کی حد تک ہیں۔

vi۔ موت کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ اکثر اوقات لفظ موت استعمال فرماتا ہے۔ مثلا خود حضور (ص) کے بارے میں فرمایا: اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّ اِنَّہُمۡ مَّیِّتُوۡنَ ﴿۫﴾ (۳۹ زمر: ۳۰۔ (اے رسول) یقینا آپ کو بھی انتقال کرنا ہے اور انہیں بھی یقینا مرنا ہے)

لہٰذا زیر بحث آیت میں مُتَوَفِّیۡکَ کا لفظ موت کو صریحاً بیان نہیں کرتا، بلکہ موت پر دلالت کا صرف احتمال پیدا کرتا ہے جو قرائن سے رفع ہوجاتا ہے۔

vii۔ خود مسیحیوں کے ایک فرقے کا یہ عقیدہ تھا کہ مسیح علیہ السلام قتل نہیں ہوئے، بلکہ آسمان پرزندہ اٹھا لیے گئے تھے۔

ب۔ مُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا: کافروں کی ناپاک تہمتوں سے تجھے پاک کرنے والا ہوں کہ آیندہ یہ کافر آپ کی قدسیت کے خلاف گندی زبان استعمال نہیں کر پائیں گے۔

ج۔ وَ جَاعِلُ الَّذِیۡنَ ۔۔۔۔: مسیح کے ماننے والوں کو یہودیوں پر غالب رکھے گا۔ قرآن کے اس دعوے کا یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ یہودی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اپنے مقصد میں ناکام دیکھنا چاہتے تھے تاکہ ہمیشہ کے لیے یہودیت ہی کا بول بالا رہے۔ اسی مقصدکے حصول کے لیے وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنا چاہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ یہ وعدہ فرما رہا ہے کہ مسیح علیہ السلام کے ماننے والوں کا بول بالا رہے گا۔ اس وعدے میں عصر مسیح علیہ السلام میں مسیحیت کے حقیقی پیروکار، اسلامی نقطہ نگاہ کے مطابق حضرت مسیح علیہ السلام کو رسول اللہ ماننے والے اور عصر ظہور و نزول مسیح علیہ السلام میں آپ علیہ السلام کو ماننے والے سب شامل ہیں۔

اہم نکات

۱۔ یہودی عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے میں ناکام رہے او ر وہ زندہ آسمان پر اٹھا لیے گئے: وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ ۔۔۔۔


آیت 55