مکان خدا اور نظریہ اہل سنت


اِذۡ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ وَ مُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ جَاعِلُ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡکَ فَوۡقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ ۚ ثُمَّ اِلَیَّ مَرۡجِعُکُمۡ فَاَحۡکُمُ بَیۡنَکُمۡ فِیۡمَا کُنۡتُمۡ فِیۡہِ تَخۡتَلِفُوۡنَ﴿۵۵﴾

۵۵۔ جب اللہ نے فرمایا: اے عیسیٰ اب میں تمہاری مدت پوری کر رہا ہوں اور تمہیں اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور تمہیں کافروں (کی ناپاک سازشوں) سے پاک کرنے والا ہوں اور جو لوگ تمہاری پیروی کریں گے انہیں قیامت تک کفر اختیار کرنے والوں پر بالادست رکھوں گا، پھر تم لوگوں کو میری طرف لوٹ کر آنا ہے، پھر اس وقت میں تمہارے درمیان (ان باتوں کا) فیصلہ کروں گا جن میں تم اختلاف کرتے رہے ہو۔

55۔ مُتَوَفِّیۡکَ :سے مراد وفات نہیں، مدت پوری کرنا ہے کیونکہ ٭ مَکَرُوۡا وَ مَکَرَ اللّٰہُ ، یہودیوں نے قتل عیسیٰ علیہ السلام کی سازش کی تھی جسے اللہ نے ناکام بنا دیا۔ مُتَوَفِّیۡکَ کے معنی وفات لینے سے یہود کی ناکامی ثابت نہیں ہوتی، جب کہ آیت کے مطابق یہود ناکام ہو گئے۔٭سورہ النساء آیت 157 میں فرمایا: وَ مَا قَتَلُوۡہُ وَ مَا صَلَبُوۡہُ وہ نہ آپ کو قتل کر سکے نہ سولی چڑھا سکے۔ ٭ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ ، میں تجھے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں۔ چنانچہ سورة النساء میں اٹھانے کو قتل کے مقابلے میں ذکر کیا ہے: وَ مَا قَتَلُوۡہُ یَقِیۡنًۢا۝ بَلۡ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیۡہِ ۔ جمال الدین قاسمی اپنی تفسیر محاسن التاویل 4:108 میں اس آیت کے ذیل میں دلائل دیتے ہیں: اللہ تعالیٰ آسمانوں کے اوپر ہے۔ پھر کہتے ہیں: و ھو مذھب السلف قاطبۃ۔ یہ تمام علمائے سلف کا نظریہ ہے۔ پھر فرماتے ہیں: و قد اتفقت کلمۃ المسلمین ان اللّہ فوق عرشہ فوق سماواتہ۔ تمام مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ اللہ اپنے عرش کے اوپر ہے، اپنے آسمانوں کے اوپر ہے۔ اس سلسلے میں اہل بیت علیہ السلام کا نظریۂ توحید ملاحظہ فرمائیں۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: ومن قال فیم فقد ضمنہ و من قال علام فقد اخلی منہ ۔ (نہج البلاغۃ خطبہ اوّل) جس نے یہ کہا کہ اللہ کس چیز میں ہے، اس نے اسے کسی شے کے ضمن میں فرض کر لیا اور جس نے یہ کہا کہ اللہ کس چیز پر ہے، اس نے اور جگہیں اس سے خالی سمجھ لیں۔