قَالَ رَبِّ اجۡعَلۡ لِّیۡۤ اٰیَۃً ؕ قَالَ اٰیَتُکَ اَلَّا تُکَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰثَۃَ اَیَّامٍ اِلَّا رَمۡزًا ؕ وَ اذۡکُرۡ رَّبَّکَ کَثِیۡرًا وَّ سَبِّحۡ بِالۡعَشِیِّ وَ الۡاِبۡکَارِ﴿٪۴۱﴾

۴۱۔ عرض کیا : میرے رب! میرے لیے کوئی نشانی مقرر فرما، اللہ نے فرمایا: تمہاری نشانی یہ ہو گی کہ تم تین دن تک لوگوں سے اشارے کے علاوہ بات نہ کرو گے اور اپنے رب کو خوب یاد کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو۔

41۔ نشانی کا تعین: اولاد عطا ہونے کے بارے میں جو نشانی طلب کی گئی، ممکن ہے کہ وہ کیفیت کے بارے میں ہو۔ اس مقصد کے لیے تین دن تک لوگوں سے بات نہ کرنے اور اولاد عطا ہونے کے درمیان کیا ربط ہو سکتا ہے؟ نیز لوگوں سے بات نہ کرنا کس مطلب کی طرف اشارہ ہے؟ آیت سے اس بارے میں کچھ ثابت نہیں ہوتا۔ روایت میں آیا ہے کہ حضرت زکریا علیہ السلام تین دن تک لوگوں سے بات کر ہی نہ سکے۔ لیکن جب تسبیح و ذکر خدا کرنے پر آتے تو زبان کھل جاتی تھی۔ یہ علامت تھی کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کا حمل قرار پا گیا۔

وَ اِذۡ قَالَتِ الۡمَلٰٓئِکَۃُ یٰمَرۡیَمُ اِنَّ اللّٰہَ اصۡطَفٰکِ وَ طَہَّرَکِ وَ اصۡطَفٰکِ عَلٰی نِسَآءِ الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۴۲﴾

۴۲۔اور (وہ وقت یاد کرو) جب فرشتوں نے کہا: اے مریم!بیشک اللہ نے تمہیں برگزیدہ کیا ہے اور تمہیں پاکیزہ بنایا ہے اور تمہیں دنیا کی تمام عورتوں پر برگزیدہ کیا ہے۔

42۔ اس آیت میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ غیر انبیاء پر بھی فرشتے نازل اور ان سے ہمکلام ہوتے ہیں۔ فرشتوں سے ہمکلام ہونے والی ہستیاں حسب ذیل ہیں:

نبی : نبی وہ ہیں جو خواب میں آواز سنتے ہیں مگر فرشتے نظر نہیں آتے۔ رسول : وہ ہیں جن کو فرشتے نظر آتے ہیں اور ان سے ہم کلام ہوتے ہیں۔ مُحَدَّث وہ ہیں جن کو کلام سنائی دیتا ہے مگر فرشتے نظر نہیں آتے۔ (ملاحظہ ہو الکافی 761) جیسے مادر موسیٰ کے لیے حکم آیا کہ موسیٰ کو دریا میں ڈال دو وغیرہ اور حضرت مریم سلام اللہ علیہا سے ہمکلام ہونے کے لیے فرشتے نازل ہوئے۔ امامیہ احادیث میں حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں وارد ہوا ہے کہ آپ علیہ السلام مُحَدَّث ہیں۔ آیت میں حضرت مریم (س) کو برگزیدہ کرنے کا دوبارہ ذکر آیا ہے۔ پہلی بار حضرت مریم علیہ السلام کو اللہ نے اپنے لطف و کرم سے نوازتے ہوئے برگزیدہ فرمایا۔ دوسری بار تطہیر کے بعد برگزیدہ فرمایا۔ اس بار عملاً استحقاق اور کردار کی بلندی کی وجہ سے برگزیدہ فرمایا۔ اس لیے تمام دنیا کی عورتوں پر ان کو منتخب فرمایا۔ کیا حضرت مریم علیہ السلام کو اپنے عالم کی عورتوں پر برگزیدہ فرمایا یا تمام عالم اس میں شامل ہیں؟ احادیث کے مطابق حضرت مریم (س) کو صرف اپنے عالم کی عورتوں پر برگزیدہ فرمایا ہے۔

یٰمَرۡیَمُ اقۡنُتِیۡ لِرَبِّکِ وَ اسۡجُدِیۡ وَ ارۡکَعِیۡ مَعَ الرّٰکِعِیۡنَ﴿۴۳﴾

۴۳۔ اے مریم! اپنے رب کی اطاعت کرو اور سجدہ کرتی رہو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرتی رہو۔

ذٰلِکَ مِنۡ اَنۡۢبَآءِ الۡغَیۡبِ نُوۡحِیۡہِ اِلَیۡکَ ؕ وَ مَا کُنۡتَ لَدَیۡہِمۡ اِذۡ یُلۡقُوۡنَ اَقۡلَامَہُمۡ اَیُّہُمۡ یَکۡفُلُ مَرۡیَمَ ۪ وَ مَا کُنۡتَ لَدَیۡہِمۡ اِذۡ یَخۡتَصِمُوۡنَ﴿۴۴﴾

۴۴۔ یہ غیب کی خبریں ہم آپ کو وحی کے ذریعہ بتا رہے ہیں اور آپ تو ان کے پاس موجود نہ تھے جب وہ اپنے قلم پھینک رہے تھے کہ ان میں سے کون مریم کی سرپرستی کرے اور نہ ہی آپ ان کے پاس (اس وقت) موجود تھے جب وہ جھگڑ رہے تھے۔

اِذۡ قَالَتِ الۡمَلٰٓئِکَۃُ یٰمَرۡیَمُ اِنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَۃٍ مِّنۡہُ ٭ۖ اسۡمُہُ الۡمَسِیۡحُ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ وَجِیۡہًا فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ وَ مِنَ الۡمُقَرَّبِیۡنَ ﴿ۙ۴۵﴾

۴۵۔ جب فرشتوں نے کہا: اے مریم! اللہ تجھے اپنی طرف سے ایک کلمے کی بشارت دیتا ہے جس کا نام مسیح عیسیٰ بن مریم ہو گا، وہ دنیا و آخرت میں آبرومند ہو گا اور مقرب لوگوں میں سے ہو گا۔

45۔ الۡمَسِیۡحُ عبرانی لفظ مسیحا کا معرب ہے جو مبارک کے معنوں میں ہے۔ عیسیٰ: یہ عبرانی لفظ یسوع کا معرب ہے، یعنی نجات دہندہ۔

وَ یُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الۡمَہۡدِ وَ کَہۡلًا وَّ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ﴿۴۶﴾

۴۶۔ اور وہ لوگوں سے گہوارے میں اور بڑی عمر میں گفتگو کرے گا اور صالحین میں سے ہو گا۔

قَالَتۡ رَبِّ اَنّٰی یَکُوۡنُ لِیۡ وَلَدٌ وَّ لَمۡ یَمۡسَسۡنِیۡ بَشَرٌ ؕ قَالَ کَذٰلِکِ اللّٰہُ یَخۡلُقُ مَا یَشَآءُ ؕ اِذَا قَضٰۤی اَمۡرًا فَاِنَّمَا یَقُوۡلُ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ﴿۴۷﴾

۴۷۔ مریم نے کہا: میرے رب! میرے ہاں لڑکا کس طرح ہو گا؟ مجھے تو کسی شخص نے چھوا تک نہیں، فرمایا: ایسا ہی ہو گا اللہ جو چاہتا ہے خلق فرماتا ہے، جب وہ کسی امر کا ارادہ کر لیتا ہے تو اس سے کہتا ہے ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے۔

47۔ کُنۡ صرف ایک تعبیر ہے ورنہ ارادﮤ الہٰی کے نفاذ کے لیے کاف و نون کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے: یقول لما اراد کونہ کن فیکون لا بصوت یقرع ولا بنداء یسمع و انما کلامہ سبحانہ فعل منہ انشائہ ۔ (نہج البلاغہ خ 228) جب اللہ کسی چیز کے وجود کا ارادہ کر لیتا ہے تو اس سے فرماتا ہے: ہو جا، پس وہ ہو جاتا ہے۔ یہ نہ کسی ایسی آواز سے ہوتا ہے جو بولی جائے اور نہ کسی ایسی صدا سے جو سنائی دے اور اللہ کا کلام تو بس اس کا فعل اور اس کی ایجاد ہے۔

وَ یُعَلِّمُہُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ التَّوۡرٰىۃَ وَ الۡاِنۡجِیۡلَ ﴿ۚ۴۸﴾

۴۸۔ اور (اللہ) اسے کتاب و حکمت اور توریت و انجیل کی تعلیم دے گا۔

وَ رَسُوۡلًا اِلٰی بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ ۬ۙ اَنِّیۡ قَدۡ جِئۡتُکُمۡ بِاٰیَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ ۙ اَنِّیۡۤ اَخۡلُقُ لَکُمۡ مِّنَ الطِّیۡنِ کَہَیۡـَٔۃِ الطَّیۡرِ فَاَنۡفُخُ فِیۡہِ فَیَکُوۡنُ طَیۡرًۢا بِاِذۡنِ اللّٰہِ ۚ وَ اُبۡرِیٴُ الۡاَکۡمَہَ وَ الۡاَبۡرَصَ وَ اُحۡیِ الۡمَوۡتٰی بِاِذۡنِ اللّٰہِ ۚ وَ اُنَبِّئُکُمۡ بِمَا تَاۡکُلُوۡنَ وَ مَا تَدَّخِرُوۡنَ ۙ فِیۡ بُیُوۡتِکُمۡ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ ﴿ۚ۴۹﴾

۴۹۔ اور (وہ) بنی اسرائیل کی طرف بھیجے گئے رسول کی حیثیت سے (کہے گا:) میں تمہارے رب کی طرف سے نشانی لے کر تمہارے پاس آیا ہوں، (وہ یہ کہ) میں تمہارے سامنے مٹی سے پرندے کی شکل کا مجسمہ بناتا ہوں اور اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ خدا کے حکم سے پرندہ بن جاتا ہے اور میں اللہ کے حکم سے مادر زاد اندھے اور برص کے مریض کو تندرست اور مردے کو زندہ کرتا ہوں اور میں تم لوگوں کو بتاتا ہوں کہ تم کیا کھاتے ہو اور اپنے گھروں میں کیا جمع کر کے رکھتے ہو، اگر تم صاحبان ایمان ہو تو اس میں تمہارے لیے نشانی ہے۔

49۔ سورہ بقرہ آیت 60 کے ذیل میں اس موضوع پر ہم نے مختصراً لکھا ہے کہ معجزات، طبیعی قوانین کی عام دفعات کے تحت نہیں ہوتے، ورنہ یہ سب کے لیے قابل تسخیر ہوتے اور معجزہ نہ ہوتا۔ معجزہ اس وقت معجزہ ہوتا ہے جب یہ سطحی اور ظاہری علل و اسباب کے سلسلے کو توڑ دے۔ البتہ معجزے کے اپنے علل و اسباب ضرور ہوتے ہیں جو ہر ایک کے لیے قابل تسخیر نہیں ہوتے۔ لہٰذا معجزات کے علل و اسباب کو قانونِ طبیعت کی عام دفعات میں تلاش کرنا انکار معجزہ کے مترادف ہے۔ جیسا کہ صاحب ”المنار“ نے کوشش کی ہے۔

اَخۡلُقُ لَکُمۡ : خلق متعدد معنوں میں استعمال ہوتا ہے: ٭ خلق ابداعی یعنی عدم سے وجود میں لانا۔ یہ بات صرف ذاتِ خداوندی کے ساتھ مخصوص ہے۔ ٭ خلق تشکیلی یعنی ایک شے سے دوسری شے بنانا۔ ٭ خلق تقدیری یعنی اندازہ کرنا۔ خلق ان دو معنوں میں غیر اللہ کے ساتھ بھی متصف ہو سکتا ہے۔

ولایت تکوینی: انبیاء اور اولیاء علیہم السلام اظہار حجت و اثبات حق کے لیے باذن خدا عالم خلقت کے تکوینی امور میں تصرف کرتے ہیں۔وہ مردوں کو زندہ کرتے ہیں اور شق القمر کرتے ہیں نیز بوقت ضرورت دیگر معجزات رکھتے ہیں جو عالم تخلیق و تکوین سے مربوط ہیں۔ البتہ یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ یہ تصرف اور اختیار اللہ کے تصرف کے مقابلے میں نہیں بلکہ اللہ کے تصرف و اختیار کے ذیل میں آتا ہے۔ اس قسم کے تصرفات کے ساتھ عام طور پر باذن اللہ کا ذکر آتا ہے۔

وَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوۡرٰىۃِ وَ لِاُحِلَّ لَکُمۡ بَعۡضَ الَّذِیۡ حُرِّمَ عَلَیۡکُمۡ وَ جِئۡتُکُمۡ بِاٰیَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ ۟ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوۡنِ﴿۵۰﴾

۵۰۔ اور اپنے سے پیشتر آنے والی توریت کی تصدیق کرتا ہوں اور جو چیزیں تم پر حرام کر دی گئی تھیں ان میں سے بعض کو تمہارے لیے حلال کرنے آیا ہوں اور میں تمہارے رب کی طرف سے نشانی لے کر تمہارے پاس آیا ہوں، لہٰذا اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

50۔ قرآن کریم اس حقیقی توریت کی تصدیق فرما رہا ہے جس کی تعلیم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دی گئی تھی ورنہ مروجہ توریت کے بارے میں تو قرآن کا مؤقف یہ ہے کہ اس میں تحریف واقع ہوئی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں: میں شریعت موسوی میں جزوی ترمیم و تنسیخ کے ساتھ اسی کی تکمیل و تشریح کرنے آیا ہوں۔ اگر میں سچا نبی نہ ہوتا تو کسی نئے دین کی بنیاد رکھتا۔ سابقہ دین کی تائید اس بات کی دلیل ہے کہ میری نبوت بھی سلسلۂ نبوت کی ایک کڑی ہے۔