آیت 54
 

وَ مَکَرُوۡا وَ مَکَرَ اللّٰہُ ؕ وَ اللّٰہُ خَیۡرُ الۡمٰکِرِیۡنَ﴿٪۵۴﴾

۵۴۔ان لوگوں نے(عیسیٰ کے قتل کی) تدابیر سوچیں اور اللہ نے (بھی جوابی) تدبیر فرمائی اور اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔

تشریح کلمات

مَکَرَ:

( م ک ر ) چال چلنا۔ تدبیر سوچنا۔ راغب لکھتے ہیں: مَکَر کا معنی کسی شخص کو حیلے کے ذریعے اس کے مقصد سے منحرف کرنا ہے۔ یہ لفظ عربی میں نیک و بد دونوں قسم کی چال چلنے اور تدبیر سوچنے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ مَکَرُوۡا وَ مَکَرَ اللّٰہُ: یہود کا مکر و سازش، ظلم و نا انصافی پر مبنی تھا اور اللہ کا مکر و تدبیر، عدل و انصاف پر مبنی تھا۔ ظلم اور عدل، دونوں کے لیے ایک تعبیر اختیار کرنا ایک محاورہ ہے۔ جیسے فرمایا:

فَمَنِ اعۡتَدٰی عَلَیۡکُمۡ فَاعۡتَدُوۡا عَلَیۡہِ بِمِثۡلِ مَا اعۡتَدٰی عَلَیۡکُمۡ ۔۔ (۲ بقرہ: ۱۹۴)

لہٰذا جو تم پر زیادتی کرے تو تم بھی اس پر اسی طرح زیادتی کرو، جس طرح اس نے تم پر زیادتی کی ہے۔

ظاہر ہے زیادتی کا اسی طرح جواب دینا زیادتی نہیں ہے۔ اس کے باوجود دونوں کے لیے ایک لفظ استعمال کیا ہے۔

۲۔ وَ اللّٰہُ خَیۡرُ الۡمٰکِرِیۡنَ: اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔ کیونکہ اللہ کی تدبیر، عدل و انصاف پر مبنی ہوتی ہے۔

یہودی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کے بارے میں خفیہ تدابیر سوچتے رہے، لیکن اللہ کی خفیہ تدبیر کے مقابلے میں ان کی تدابیر بے نتیجہ رہیں، کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قتل نہ ہوئے بلکہ آسمان پر اٹھا لیے گئے۔

اہم نکات

۱۔ داعیان حق کو اہل باطل کی سازشوں کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔


آیت 54