اَلَّذِیۡنَ اِنۡ مَّکَّنّٰہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوۡا بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ نَہَوۡا عَنِ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَ لِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الۡاُمُوۡرِ﴿۴۱﴾

۴۱۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دیں تو وہ نماز قائم کریں گے اور زکوٰۃ ادا کریں گے اور نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے اور تمام امور کا انجام اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

41۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قانونی حکومت وہ ہے جو اقتدار حاصل ہونے پر تین چیزوں کو اپنا شعار بنائے: اقامہ نماز، زکوٰۃ کی ادائیگی اور اصلاح معاشرہ۔ اقامہ نماز کے ذریعے اللہ سے بندگی کا رشتہ قائم ہوتا ہے اور ادائے زکوٰۃ کے ذریعے غریبوں اور ناداروں کی کفالت حکومت کی ذمہ داری ہے۔امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعے عدل و انصاف قائم کرنا اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے۔

وَ اِنۡ یُّکَذِّبُوۡکَ فَقَدۡ کَذَّبَتۡ قَبۡلَہُمۡ قَوۡمُ نُوۡحٍ وَّ عَادٌ وَّ ثَمُوۡدُ ﴿ۙ۴۲﴾

۴۲۔ اگر لوگ آپ کی تکذیب کرتے ہیں تو ان سے پہلے بھی تکذیب کی قوم نوح نے اور قوم عاد اور ثمود نے،

وَ قَوۡمُ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ قَوۡمُ لُوۡطٍ ﴿ۙ۴۳﴾

۴۳۔ اور قوم ابراہیم اور قوم لوط نے،

وَّ اَصۡحٰبُ مَدۡیَنَ ۚ وَ کُذِّبَ مُوۡسٰی فَاَمۡلَیۡتُ لِلۡکٰفِرِیۡنَ ثُمَّ اَخَذۡتُہُمۡ ۚ فَکَیۡفَ کَانَ نَکِیۡرِ﴿۴۴﴾

۴۴۔اور مدین والوں نے بھی، اور موسیٰ کی بھی تکذیب کی گئی ہے پس میں نے کفار کو پہلے مہلت دی پھر میں نے انہیں گرفت میں لے لیا پھر (دیکھ لو) میرا عذاب کیسا سخت ہے؟

فَکَاَیِّنۡ مِّنۡ قَرۡیَۃٍ اَہۡلَکۡنٰہَا وَ ہِیَ ظَالِمَۃٌ فَہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوۡشِہَا وَ بِئۡرٍ مُّعَطَّلَۃٍ وَّ قَصۡرٍ مَّشِیۡدٍ﴿۴۵﴾

۴۵۔ پھر (قابل فکر ہے) کتنی ہی بستیاں ان کے ظلم کی وجہ سے ہم نے تباہ کیں اور وہ اپنی چھتوں پر گری پڑی ہیں اور کتنے کنویں اور اونچے قصر بیکار پڑے ہیں۔

اَفَلَمۡ یَسِیۡرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ فَتَکُوۡنَ لَہُمۡ قُلُوۡبٌ یَّعۡقِلُوۡنَ بِہَاۤ اَوۡ اٰذَانٌ یَّسۡمَعُوۡنَ بِہَا ۚ فَاِنَّہَا لَا تَعۡمَی الۡاَبۡصَارُ وَ لٰکِنۡ تَعۡمَی الۡقُلُوۡبُ الَّتِیۡ فِی الصُّدُوۡرِ﴿۴۶﴾

۴۶۔ کیا یہ لوگ زمین پر چلتے پھرتے نہیں ہیں کہ ان کے دل سمجھنے والے یا ان کے کان سننے والے ہو جاتے؟ حقیقتاً آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہوتے ہیں۔

46۔ واضح رہے کہ قرآن ادب و محاورہ کی زبان میں بات کرتا ہے، چنانچہ وہ اسی محاورہ کے تحت خود اپنی ذات کے لیے دو ہاتھوں کا ذکر کرتا ہے بَلۡ یَدٰہُ مَبۡسُوۡطَتٰنِ ۙ یُنۡفِقُ کَیۡفَ یَشَآءُ ؕ (مائدہ: 64) اللہ کے تو دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں، وہ جیسے چاہتا ہے انفاق کرتا ہے۔ اسی طرح یہ بھی محاورہ ہے کہ بات میرے دل میں ہے، یہ راز میرے سینے میں ہے اور سینہ بہ سینہ بھی ایک محاورہ ہے، ورنہ نہ تو اللہ کے لیے دو ہاتھ ہیں، نہ ہی سوچنے کا کام دل سے لیا جاتا ہے اور نہ راز سینے میں ہوتے ہیں، یہ سب سائنسی اعتبار سے دماغ کا کام ہے، مگر محاورۃً دل کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔

وَ یَسۡتَعۡجِلُوۡنَکَ بِالۡعَذَابِ وَ لَنۡ یُّخۡلِفَ اللّٰہُ وَعۡدَہٗ ؕ وَ اِنَّ یَوۡمًا عِنۡدَ رَبِّکَ کَاَلۡفِ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوۡنَ﴿۴۷﴾

۴۷۔ اور یہ لوگ آپ سے عذاب جلدی طلب کر رہے ہیں اور اللہ اپنے وعدے کے خلاف ہرگز نہیں کرتا اور آپ کے رب کے ہاں کا ایک دن تمہارے شمار کے مطابق یقینا ہزار برس کی طرح ہے۔

وَ کَاَیِّنۡ مِّنۡ قَرۡیَۃٍ اَمۡلَیۡتُ لَہَا وَ ہِیَ ظَالِمَۃٌ ثُمَّ اَخَذۡتُہَا ۚ وَ اِلَیَّ الۡمَصِیۡرُ﴿٪۴۸﴾

۴۸۔ اور بہت سی بستیاں ایسی ہیں جنہیں مہلت دیتا رہا ہوں جب کہ وہ ظلم کرنے والی تھیں، پھر میں نے انہیں گرفت میں لیا اور میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔

قُلۡ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّمَاۤ اَنَا لَکُمۡ نَذِیۡرٌ مُّبِیۡنٌ ﴿ۚ۴۹﴾

۴۹۔ کہدیجئے: اے لوگو! میں تو تمہارے لیے صرف صریح تنبیہ کرنے والا ہوں۔ـ

فَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَہُمۡ مَّغۡفِرَۃٌ وَّ رِزۡقٌ کَرِیۡمٌ﴿۵۰﴾

۵۰۔ پس جو لوگ ایمان لاتے ہیں اور نیک اعمال انجام دیتے ہیں ان کے لیے مغفرت اور عزت کی روزی ہے۔