آیت 41
 

اَلَّذِیۡنَ اِنۡ مَّکَّنّٰہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوۡا بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ نَہَوۡا عَنِ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَ لِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الۡاُمُوۡرِ﴿۴۱﴾

۴۱۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دیں تو وہ نماز قائم کریں گے اور زکوٰۃ ادا کریں گے اور نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے اور تمام امور کا انجام اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اَلَّذِیۡنَ اِنۡ مَّکَّنّٰہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ: ان لوگوں کے اوصاف کا بیان ہے جو ایمان خالص رکھتے ہیں۔ ان کو اگر زمین میں اقتدار حاصل ہو جائے اور شعائر دینی کے قیام کے لیے کوئی رکاوٹ سامنے نہ آئے تو وہ اپنے دین کے ارکان قائم رکھتے ہیں:

الف: سب سے پہلا قدم وہ اقامہ نماز کے لیے اٹھاتے اور نمازی معاشرہ تشکیل دیتے ہیں۔ چنانچہ جب مدینہ میں اسلامی معاشرہ قائم ہونے لگا سب سے پہلے اقامہ صلوٰۃ کے لیے مسجد کی بنیاد رکھی اور فاسد معاشرے کی پہلی علامت یہ ہے کہ وہ نماز کو اہمیت نہیں دیتا:

فَخَلَفَ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ خَلۡفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوۃَ ۔۔۔۔ (۱۹ مریم: ۵۹)

پھر ان کے بعد ایسے ناخلف ان کے جانشین ہوئے جنہوں نے نماز کو ضائع کیا۔۔۔۔

ب: وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ: اس معاشرے کا دوسرا رکن اقتصادی ہو گا کہ ادائے زکوٰۃ کے ساتھ جہاد سے لے کر غریب پروری تک کے مسائل حل کرتے ہیں۔

ج: وَ اَمَرُوۡا بِالۡمَعۡرُوۡفِ: تیسرا رکن اصلاحی تحریک ہو گی۔ تعمیری باتوں کو رواج دینا اور تخریبی حرکتوں کا راستہ روکنا ہو گا۔

اہم نکات

۱۔ اسلامی معاشرے کا قیام تین ارکان پر مشتمل ہے: اقامہ الصلوۃ ، ادائے زکوۃ اور اصلاح عمل۔


آیت 41